وبا کا قہر اور مویشیوں کی امتیازی حفاظت

جب دل سنگ ہو جائیں اور آنکھیں نشانیوں کے باوجود بینائی سے خالی رہیں، تب ربّ العالمین اپنی قدرت کو ایسی صورت میں ظاہر کرتا ہے جسے کوئی انکار کرنے والا بھی جھٹلا نہ سکے۔ فرعون، جو اپنی ہر شکست کے بعد پھر تکبر کی چادر اوڑھ لیتا، اب ایک نئی حجت کے روبرو کھڑا ہونے والا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت موسیٰؑ سے دوبارہ کلام فرمایا:
“اے موسیٰ! فرعون کے پاس جا کر کہو کہ ربّ العالمین، جو بنی اسرائیل کے ساتھ عہدِ وفا کرنے والا ہے، اُس کا حکم ہے کہ وہ میرے بندوں کو رہائی دے تاکہ وہ میری عبادت کریں۔ اگر وہ اب بھی ظلم پر قائم رہا اور ان مظلوموں کو جانے سے روکتا رہا، تو جان لے! میں اپنی قدرت سے ایک شدید وبا نازل کروں گا جو اس کی سلطنت کے ہر مویشی کو نیست و نابود کر دے گی۔”

یہ فرمانِ قہار محض عذاب کا اعلان نہ تھا، بلکہ اس میں ایک نشانی بھی چھپی تھی
“اے فرعون! اس بار میں فرق ظاہر کروں گا تیرے مصری مویشی مریں گے، مگر بنی اسرائیل کے ریوڑ سلامت رہیں گے۔ تاکہ تم جان لو کہ زمین و آسمان پر اختیار صرف ‘اَحکَمُ الحاکمین’ ہی کا ہے!”

حضرت موسیٰؑ نے یہ پیغام پوری حکمت اور وقار سے فرعون کے دربار میں پہنچایا، اور پھر جیسا ربّ نے وعدہ فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا۔ اگلی صبح، مصر کے میدان، کھیت، اصطبل اور چراگاہیں ایسی وبا کی لپیٹ میں آ گئیں کہ ہر گھوڑا، گدھا، بیل، اونٹ، بکری اور گائے ایک ایک کر کے زمین پر گرنے لگے۔ آسمان کی ہوا قہر کے بوجھ سے لرزنے لگی، اور زمین پر خاموش موت کا سایہ چھا گیا۔

مگر وادئ طُوملات میں، جہاں مظلوم بنی اسرائیل سکونت پذیر تھے، وہاں ہر ریوڑ، ہر چراگاہ، ہر جانور نہ صرف محفوظ تھا بلکہ سرسبز چراگاہوں میں خوشی سے چر رہا تھا۔

جب فرعون نے اس منظر کی خبر سنی تو اُس نے اپنے درباریوں کو وادئ طُوملات بھیجا کہ جا کر معلوم کرو، کیا وہاں بھی موت نے اپنا پنجہ گاڑا ہے؟ مگر جب وہ واپس آئے تو حیرت، خوف اور حیرانی سے لبریز تھے۔
“اے بادشاہ! بنی اسرائیل کے مویشی نہ صرف زندہ ہیں بلکہ چاک و چوبند، صحتمند اور خوشحال ہیں!”

یہ سن کر بھی فرعون کا دل نہ بدلا۔ حجت واضح ہوئی، نشانیاں ظاہر ہوئیں، مگر اُس کے دل کی ظلمت مزید گہری ہو گئی۔ اس نے اپنی ضد جاری رکھی اور بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت نہ دی۔


حضرت خسروؒ

حق چو آید زِ ربِ نور جلی
دلِ تار نگردد روشن بہ دلیل
تشریح:
جب سچائی ربِ جلیل کی طرف سے آتی ہے تو وہ نور ہوتی ہے، مگر جس دل میں اندھیرا ہو، وہ دلیل سے بھی روشن نہیں ہوتا۔


نتائج:

  1. ربّ کی نشانیوں میں فرق و امتیاز ہوتا ہے وہ ظالم پر قہر لاتا ہے، اور مظلوم کے لیے حفاظت۔
  2. وبا صرف عذاب نہیں، دلیلِ حکمت بھی ہے تاکہ انکار کرنے والے جان لیں کہ اللّٰہ سب پر قادر ہے۔
  3. ضد اور تکبر دل کو قفل لگا دیتا ہے حتیٰ کہ سب کچھ دیکھ کر بھی انسان حق سے دور رہتا ہے۔
  4. ربّ العالمین کی رحمت اپنے وعدہ یافتہ بندوں پر ہمیشہ سایہ فگن رہتی ہے چاہے زمانہ کیسا بھی ہو۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ قہر کی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ جو اُس کے قریب ہوں، اُن کے لیے قہر بھی رحم بن جاتا ہے۔ اور جو سرکشی کریں، اُن کے لیے سب کچھ ایک سبق ہوتا ہے جسے وہ سیکھنے کے بجائے جھٹلا دیتے ہیں۔ موسیٰؑ کے معجزات ایک صدا ہیں ہر زمانے کے فرعونوں کے لیے، اور ایک امید ہیں ہر مظلوم کے لیے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔