سبق نمبر 2۔ مقامِ کوہِ طور

اب ہوا یوں جب حضرت موسیٰ ؑ کے وہاں مقیم ہونے کے بعد حضرت یترو ؓ نے اپنی بیٹی بی بی صفورہ ؓ حضرت موسیٰ ؑ کے عقد میں دے دی۔ کچھ عرصے بعد بی بی صفورہ ؓکے بطن سے حضرت موسیٰ ؑ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔
حضرت موسیٰ ؑ نے اُس بچے کا نام مبارک یہ کہتے ہوئے ” جیرسوم ؓ” رکھا کہ اب میں اجبنی دیس میں پردیسی نہیں رہا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے مدین میں قیام کے دوران اس وقت کے فرعون کی موت ہوگئی اور اس کی جگہ نیا فرعون آیا۔ تاہم قوم بنی اسرائیل پر سختیاں اُسی شدت سے جاری رہیں۔ بنی اسرائیلی بیگار سے تنگ آکر روتے پیٹتے اور آہیں بھرا کرتے کہ کاش کہیں سے غیبی مدد آ جائے۔ آخر کار بنی اسرائیلیوں کی دہائی خدا تعالیٰ کے حضور پہنچی۔
خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب سے اپنے عہد کو نبھانے کے لئے اپنی ذات با صفات ظاہر کرنے اور بنی اسرائیل کی حالتِ زار پر رحم کرم فرمانے کا ارادہ کیا۔
ایک دن حضرت موسیٰ ؑ صحرا میں اپنے خُسر حضرت یترو ؓ کے ریوڑ چراتے ہوئے کافی دور نکل گئے۔ چلتے چلتے حضرت موسیٰ ؑ ایک مقام کے قریب پہنچے جس کو کوہِ طوریا پھر جبل اللہ کہا جاتا تھا۔ اچانک حضرت موسیٰ ؑ کی نظر ایک جھاڑی پر پڑی آپ ؑ کیا دیکھتے ہیں کہ اس جھاڑی میں آگ دہک رہی ہے لیکن وہ جھاڑی جل کر خاکستر نہیں ہو رہی۔
حضرت موسیٰ ؑ نے سوچا ذرا اوپر چل کر دیکھوں تو کیا ماجرا ہے؟
جب حضرت موسیٰ ؑ اوپر جھاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔ دفعتاً جھاڑی میں سے ایک آواز آئی:”
موسیٰ ؑ! موسیٰ ؑ! حضرت موسیٰ ؑ نے یہ سنتے ہی مارے خوف کے اپنا چہرہ دنوں ہاتھوں میں چھپا لیا کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ کو احساس ہوگیا تھا کہ دراصل تجلیء الٰہی شعلہ آتش میں آپ کے سامنے ظاہر ہوا ہے۔
حضرت موسیٰ ؑ نے جواب دیا! لبیک، لبیک
ارشاد ہوا! میں تمہارے آباؤ اجداد حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ کا رب تمہیں حکم دیتا ہوں کہ مزید آگے مت بڑھنا۔ اپنے جوتے اتار دو کیونکہ جس جگہ تم کھڑے ہو وہ پاک جگہ ہے۔
باری تعالیٰ سے پھر ارشاد ہوا! موسیٰ ؑ! میں اپنے عہدِ دوام کی وارث، امتِ بنی اسرائیل کی مصیبت بہت دیکھ چکا اور بیگار جھیلتے ہوئے ان مظلوموں کی آہ و بکا بھی بہت سن لی اب اُن کی اذیت جان لینے کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں بنی اسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے رہائی دلوا دوں گا میں انہیں اس وسیع و زرخیز سر زمین پر لے جاؤں گا جہاں دودھ اور شہد اس بہتات سے ہیں کہ گویا نہریں بہہ رہی ہوں یعنی وہ جگہ جہاں کنعانی اور حِتّی اور اموری اور فرزّی اور حوّی اور یبوسِی لوگ آباد ہیں۔ بے شک! بنی اسرائیل کی فریاد میرے حضور پہنچ چکی ہے اور میں دیکھ چکا ہوں کہ مصری کس طرح ان پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔
باری تعالیٰ سے حکم ہوا! اے میرے بندے موسیٰ ؑ اب تم جاؤ میں تمہیں فرعون کے پاس بھیج رہا ہوں تاکہ اہلِ عہد (بنی اسرائیل) کو ملک مصر میں نکال لاؤ۔
حضرت موسیٰ ؑ نے عرض کیا:” مولا! بھلا میری کیا حیثیت ہے کہ میں فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں؟
خدا تعالیٰ نے فرمایا! ڈرو مت موسیٰ ؑ! میں تمہارا حامی و ناصر ہوں اور میں تمہیں کبھی اکیلے نہ چھوڑوں گا! یاد رکھو تم بنی اسرائیل کو مصر سے نکالنے کے بعد اسی پہاڑ پر پہنچ کر میری عبادت کرو گئے۔
تب حضرت موسیٰ ؑ نے عرض کیا! مولا! اگر میں بنی اسرائیل کے پاس جاکر ان سے کہوں کہ تمہارے باپ دادا کے رب نے مجھے تمہاری طرف معبوث فرمایا ہے تو وہ یقیناً پوچھیں گے:” اچھا! وہ ہمارے لئے کیا کرے گا؟
خدا تعالیٰ نے جواب دیا! اے میرے بندے موسیٰ ؑ اُن سے کہنا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے اُس عہد کو پورا کروں گا جو میں نے شروع ہی سے تمہارے آباؤ اجداد سے کیا تھا۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔