حضرت موسیٰؑ پر ربّی تجلی اور منصبِ نبوت
جب دعاؤں کے چراغ تپتی زمین پر روشن ہوں، اور مظلوموں کی آہ عرشِ الٰہی کو لرزانے لگے، تو اُس ربِّ کریم کا امرِ کن پردہ اٹھاتا ہے، جو اپنے بندوں کو نجات کی بشارت دیتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ، مدین کی پرامن وادی میں حضرت یتروؓ کے زیرِ سایہ مقیم تھے۔ وہی مقام جہاں صفورہؓ جیسی پاکیزہ خاتون سے اُن کا عقد ہوا، اور قدرت نے اُنہیں ایک فرزند سے نوازا جس کا نام “جیرسومؓ” رکھا گیا۔ فرمایا: “اب میں اجنبی دیار میں تنہا نہیں رہا” گویا یہ اعلان تھا کہ اجنبیت ختم اور تعلقِ روحانی قائم ہو چکا ہے۔
ادھر مصر میں وہ فرعون جو ظلم و استکبار کا نشان تھا، مٹی میں مل چکا تھا، لیکن اس کا ستمگر نظام اب بھی بنی اسرائیل پر غالب تھا۔ بےبس قوم مسلسل فریادیں کرتی، سسکتی، اور رب کے حضور اپنا حالِ زار عرض کرتی۔ ان کی آہیں، ان کے آنسو، ان کی نالہ و فغاں، آخرکار بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کا جام پہننے لگے۔
اور وہ لمحہ آ پہنچا جب عہدِ ربانی کی تکمیل کے لیے تجلیِ الٰہی نے کوہِ طور پر نور کا لباس پہنا۔
حضرت موسیٰؑ، ریوڑ چرا رہے تھے، تنہا، خاموش، مگر اندر ہی اندر ایک انقلاب کے انتظار میں۔ وہ آہستہ آہستہ اس مقام تک جا پہنچے جہاں رب نے راز آشکار کرنے تھے وہی مقام جسے جبلُ اللہ یا کوہِ طور کہا جاتا ہے۔
اچانک نظر پڑی ایک جھاڑی پر، جس میں آگ تھی مگر وہ جھاڑی نہ جلتی تھی نہ خاکستر ہوتی تھی۔ حضرت موسیٰؑ نے تعجب سے کہا: “قریب جا کر دیکھوں، یہ نور کیسا ہے؟”
ابھی قدم اٹھایا ہی تھا کہ نورانی ندا بلند ہوئی:
“موسیٰ! موسیٰ!”
رب کے جلال سے لرزتے ہوئے، حضرت موسیٰؑ نے چہرہ ڈھانپ لیا، اور جھک کر عرض کیا:
“لبیک، یا رب!”
ارشاد ہوا:
“میں تیرے باپ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ، اور حضرت یعقوبؑ کا رب ہوں۔ آگے مت بڑھ! اپنے نعلین اتار دے، کیونکہ جس جگہ تُو کھڑا ہے، وہ پاکیزہ ہے۔”
پھر ارشاد فرمایا:
“میں نے اپنی امت، بنی اسرائیل کی غلامی، ان کا آہ و فغاں، ان کا ظلم سہنا، سب کچھ دیکھا اور سنا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ میں اُنہیں اس ملک سے نجات دے کر ایسی سرزمین میں لے جاؤں جہاں دودھ اور شہد کی نہریں جاری ہیں وہی سرزمین جہاں کنعانی، حتّی، اموری، فرزّی، حوّی، اور یبوسی بستے ہیں۔”
“اور اے موسیٰؑ! میں تجھے اپنے کلام کا حامل بنا کر فرعون کے پاس بھیجتا ہوں۔ جا، اور میرے بندوں کو رہائی دے!”
حضرت موسیٰؑ نے عاجزانہ عرض کی:
“اے ربِّ عظیم! میری حیثیت ہی کیا ہے؟ میں کون ہوں کہ فرعون کے دربار میں جاؤں، اور بنی اسرائیل کو نکال کر لے آؤں؟”
ربِ کریم نے فرمایا:
“خوف نہ کر، میں تیرے ساتھ ہوں۔ تُو اکیلا نہیں۔ جب میری امت اس پہاڑ پر آ کر میری عبادت کرے گی، تو تُو جان لے گا کہ میں ہی تیرا ناصر ہوں!”
حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا:
“مولائے کریم! اگر میں بنی اسرائیل سے کہوں کہ تمہارے رب نے مجھے بھیجا ہے، تو وہ پوچھیں گے، وہ رب کون ہے؟”
ارشاد ہوا:
“کہہ دو: وہی رب، جو تمہارے آباؤ اجداد کے عہد کا نگہبان ہے وہی رب، جو تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اُس کا وعدہ اب مکمل ہونے کو ہے۔”
حضرت فخرالدین عراقیؒ
گفت موسیٰ را خدا در طور سینا اے کلیم
من توام، تو من شدی، از خویش بیرون آ تمام
تشریح:
ربِ ذوالجلال نے طور پر حضرت موسیٰؑ سے فرمایا: “اے کلیم! اب تُو اور میں جدا نہیں۔ آ، اپنے وجود سے نکل، اور مکمل میرے ہو جا!” یہی وہ مقامِ فنا ہے جہاں نبی صرف حکم کا نہیں، حقیقت کا آئینہ بن جاتا ہے۔
نتائج:
- نبوت کا منصب ربّ کی ندا سے جنم لیتا ہے، نہ کہ دنیاوی اختیار سے۔
- جب دل ربّ کی تلاش میں ہوتا ہے، تو ہر شعلہ درِ تجلی بن جاتا ہے۔
- امت کی فریاد، اگر صبر سے ہو، تو عرش ہلنے لگتا ہے۔
- رب جب کسی کو چنتا ہے، تو اسے خود اپنی نصرت عطا فرماتا ہے۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ رب کے فیصلے وقت کے غلام نہیں ہوتے، وہ قلوب کی گہرائی سے نکلنے والی فریاد سے حرکت میں آتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کی نبوت کا آغاز ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر صحرا، ہر تنہائی، اور ہر اندھیرا، رب کے نور سے جگمگا سکتا ہے اگر دل سننے والا ہو، اور روح حاضر ہو۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔