سرزمینِ وعدہ کی طرف پہلا قدم
جب زمین اپنے وجود کی گہرائیوں میں سچ کی صدا کو ترستی تھی، اور جب زمانہ خموشی کے آغوش میں کسی نورانی آغاز کا منتظر تھا، جب آسمانی صفحات پر نئے باب رقم ہونے کو تھے، تب ربِ قدیر نے اپنے مقرب بندے حضرت ابرام کو اپنی بارگاہِ نور سے خطاب فرمایا، اور ایک ایسا الہامی پیغام عطا فرمایا جو دنیا کے لیے ہدایت، اور حضرت ابرام کے لیے ابدی رسالت کا پہلا نقوشِ نور بن گیا۔
یہ وحی، فقط حکم نہ تھی، یہ ایک عہد تھا — ایک ربانی وعدہ جو عبد کے اخلاص سے جُڑا، اور اُس کی نسل کو تقدیرِ عالم کا محور بنا دیا؛ حکم یہ تھا: اے ابرام! اپنے وطن، اپنی قوم، اور اپنے خونی و خاندانی رشتوں کو ترک کر، اور اُس ارضِ مقدس کی طرف قدم بڑھا جسے میں تیری رہنمائی کے لیے ظاہر کروں گا، میں تجھے برکت بخشوں گا، تیری نسلوں کو عظیم بناؤں گا، تیرے نام کو سربلند کروں گا، جو تجھے خیر سے یاد کرے گا، اس پر میرا کرم ہو گا، اور جو تجھے خوار کرے گا، اس پر میری ناراضی ہوگی؛ زمین کی تمام اقوام تیرے وسیلے سے برکت پائیں گی — یہ وہ فرمانِ نور تھا جو ایک مسافرِ صادق کے لیے مقامِ قرب کا راستہ بن گیا۔
پس حضرت ابرام، جن کے دل کی مٹی یقین و تسلیم کے پانی سے گندھی تھی، اس ندائے ربانی پر لبیک کہتے ہوئے، اپنی زوجہ بی بی سارئی، جو وفا، صبر اور حیا کی زندہ تعبیر تھیں، اور اپنے بھتیجے حضرت لوط، جو جوانی میں ہی فہم و فراست کے چراغ سے منور تھے، کو ہمراہ لے کر، اپنے قبیلے، شہر اور خاندانی جاہ و جلال کو خدا کے نام پر ترک کر کے قصبہ حاران سے اس مقام کی طرف روانہ ہوئے جہاں مٹی مقدس اور ہوا عبادت گزار بننے والی تھی۔
جب یہ قافلہ، جس کے پاس نہ تخت تھا نہ لشکر، صرف یقین، توکل اور رضا کا زادِ راہ تھا، سرزمین کنعان میں وارد ہوا، تو حضرت ابرام نے سِکم کے علاقے میں قدم رکھا، وہاں وہی مقدس بلوط کا درخت تھا جہاں اہلِ زمین قرب و تبرک کی امیدیں باندھتے تھے، اور وہیں حضرت ابرام پر دوبارہ وحی نازل ہوئی — ابرام! یہی ہے وہ سرزمین، جسے میں تیری نسل کے لیے بطور میراث مقرر کرتا ہوں۔
حضرت ابرام نے اُس مقام پر، جہاں تجلیِ الہٰی نے ان کے دل کی تہہ کو روشن کیا، شکر کی نشانی کے طور پر پتھروں کی قربان گاہ تعمیر فرمائی، اور اس مقام پر ربِ کریم کی حمد، تسبیح اور سجدہِ نیاز میں مصروف ہو گئے؛ یہ گواہی تھی کہ عبد کا دل جب اپنے رب کے حکم پر قربانی کے لیے جھکتا ہے، تو وہ زمین پر فقط خیمہ نہیں گاڑتا، وہ آسمان سے ربط کا ستون قائم کرتا ہے۔
سِکم کے بعد، حضرت ابرام نے اپنے قدم اس پہاڑی علاقے کی طرف بڑھائے جو بیت ایل کے مشرق میں واقع تھا، اور اپنے خیمے ایسے مقام پر نصب کیے کہ مغرب میں بیت ایل اور مشرق میں قصبہ عَی ہو، اور اس جگہ بھی وہی کیفیتِ شکر و نیاز جلوہ گر ہوئی — ایک نئی قربان گاہ، ایک نئی تسبیح، ایک نیا مقامِ ذکر؛ وہ مقام جہاں ایک درویشِ وقت رب کی عظمت بیان کرتا ہے، اور وہ خاک جس پر قدم رکھتے ہیں، عرش کی جانب جھکنے لگتی ہے۔
کچھ مدت بیت ایل کے قرب میں قیام فرما کر حضرت ابرام نے جنوب کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھا، کنعان کی وادیوں میں جہاں جہاں جاتے، وہاں ذکرِ رب کی صدا چھوڑتے، دعاؤں کا چراغ جلاتے، اور قربان گاہیں تعمیر کرتے، گویا یہ ہجرت صرف خاکی قدموں کا سفر نہ تھا، یہ دل کی روحانی پرواز تھی، جس میں ہر قدم رب کے قریب لے جاتا اور ہر پڑاؤ قرب کا در وا کرتا تھا۔
شیخ سعدی شیرازی
طریقِ حق گزیدن کارِ ہر کس نیست سعدی
کہ عشق اول نمود آسان، ولی افتاد مشکلها
تشریح: سعدی کہتے ہیں کہ حق کی راہ چن لینا ہر شخص کے بس کی بات نہیں؛ عشق آسان دکھتا ہے، مگر اس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں۔
یہی حال حضرت ابرام کا ہے، جنہوں نے عشقِ الہی کی راہ چنی، اور ہر قدم پر قربانی دی — مگر آخرکار سرزمینِ وعدہ تک پہنچے۔
روحانی نتائج
- اطاعتِ خالصہ، نبوت کا پہلا زینہ ہے — جب عبد اپنی مرضی چھوڑ کر فقط حکمِ رب پر لبیک کہے، تو وہی اطاعت اُس کے لیے عزت، برکت اور ہدایت کا دروازہ کھولتی ہے۔
- دل کی ہجرت، جسم کی ہجرت سے مقدم ہے — حضرت ابرام نے پہلے دل سے رشتوں، وطن، اور دنیاوی شناخت کو رب کی رضا کے لیے ترک کیا، تب جا کر زمینِ وعدہ کی بشارت ان کا مقدر بنی۔
- جس جگہ پر ذکرِ الہی بلند ہو، وہی زمین پاک ہے — حضرت ابرام نے جہاں رب کی حمد کی، وہی جگہ عبادت گاہ بن گئی؛ گویا عبادت انسان کو پاک کرتی ہے، اور انسان کی عبادت سے زمین مقدس ہو جاتی ہے۔
اختتام
یہ باب نہ صرف ایک جغرافیائی ہجرت کی کہانی ہے، بلکہ یہ ایک باطنی سفر کا آئینہ ہے، جہاں ایک بندہ اپنی خواہشات کو فنا کر کے رب کی رضا کو اپنا مقدر بناتا ہے، اور ہر وہ قدم جو رضا کے جذبے سے اٹھایا جائے، وہ صرف زمین پر نہیں پڑتا بلکہ عرش پر گواہی بن جاتا ہے؛ حضرت ابرام کی ہجرت ایک سبق ہے اُن سب کے لیے جو رب کی راہ میں اٹھنے والے پہلے قدم سے ڈرتے ہیں — کہ جب دل یقین سے لبریز ہو، تو رب اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔