وصالِ دل: حضرت یعقوبؑ کی مصر میں آمد اور خاندان کا قیام

جب دعاؤں کا عطر فضا میں بکھر جائے، اور فراق کی سانسیں صبر کے سجدوں میں گُھل جائیں، تب ربِّ رحیم اپنی رحمت کے دَر کھول دیتا ہے۔ حضرت یعقوبؑ جن کی آنکھیں اشکوں سے نم تھیں اور دل بیٹے کی جدائی میں شکستہ، آخر کار وہ گھڑی آئی جب درد، دیدار کی روشنی میں بدل گیا۔

حضرت یوسفؑ کو جیسے ہی والدِ مکرم کی آمد کی خبر ملی، اُنہوں نے شاہی سواری تیار کروائی اور والہانہ استقبال کے لیے نکلے۔ جب نگاہیں برسوں کی فراق کے بعد ملیں، تو آنکھوں نے وہ بیان کیا جو لفظ نہ کر سکے۔ حضرت یوسفؑ لپک کر والد سے بغل گیر ہوئے، اور جذبات کی شدت میں اشکوں کے سیلاب میں بہنے لگے۔ حضرت یعقوبؑ نے فرمایا: “الحمدللہ! میں نے یوسفؑ کو سلامت دیکھ لیا، اب موت بھی آئے تو کوئی غم نہیں۔”

حضرت یوسفؑ نے عرض کی کہ میں بادشاہِ وقت کے حضور جا کر آپ کی آمد کی خبر دوں گا، اور درخواست کروں گا کہ آپ اور آپ کے اہلِ بیت کو مصر میں قیام کی اجازت دی جائے۔ ساتھ ہی فرمایا: جب بادشاہ پیشے کے متعلق سوال کرے تو کہنا کہ ہم گلہ بان ہیں، کہ یہی پیشہ ہمارے بزرگوں کی سنت اور ہماری عزت کا تاج رہا ہے۔

حضرت یوسفؑ نے پانچ بھائیوں کو ساتھ لے کر فرعون کے دربار میں پیش کیا۔ جب بادشاہ نے اُن کا پیشہ پوچھا، تو عرض کی گئی: “ہم گلہ بانی کرتے ہیں اور اب کنعان سے ہجرت کر کے یہاں آپ کے پناہ میں آئے ہیں، اگر ممکن ہو تو ہمیں وادئ طوملات میں سکونت دی جائے۔”

بادشاہ نے حضرت یوسفؑ سے فرمایا: “تمہارے والد اور اہلِ خاندان میرے لیے محترم ہیں، انہیں مصر کے بہترین علاقے میں آباد کر دو، اور اگر تمہارے بھائیوں میں کسی کو اہل سمجھو تو شاہی ریوڑ کی نگہبانی بھی سپرد کر دو۔”

بعد ازاں حضرت یوسفؑ نے والد ماجد حضرت یعقوبؑ کو دربار میں لے جا کر بادشاہ سے ملوایا۔ حضرت یعقوبؑ نے اس کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ بادشاہ نے مؤدبانہ انداز میں دریافت کیا: “اے بزرگوار، آپ کی عمر کیا ہے؟” حضرت یعقوبؑ نے جواب دیا: “میری عمر ایک سو تیس برس ہے، لیکن یہ وہ سال نہیں جو میرے بزرگوں نے اپنی عمر میں اجنبی دیار میں گزاری، میری عمر فراق، دعا اور ہجرت سے بھرپور ہے۔”

یوں حضرت یوسفؑ نے رب کے عطا کردہ منصب کو اپنے خاندان کے لیے امن، عزت، کفالت اور وصال کا ذریعہ بنایا اور مصر کے دل میں وادئ طوملات کے بابرکت سائے میں اپنے اہلِ خانہ کو بسایا۔


حکیم سنائیؒ

در فراقش جان سپردم صد امید
در وصالش زنده گشتم چون پدید

تشریح:
سنائیؒ فرماتے ہیں: “میں نے اُس کے فراق میں جان ہار دی، مگر جب دیدار ہوا تو گویا نئی زندگی ملی۔” یہ اشعار حضرت یعقوبؑ کے حال دل کی آئینہ داری کرتے ہیں، کہ جنہوں نے برسوں دعا کی، اور بالآخر رب کی بارگاہ نے اُن کی تمنا کو وصال کی بہار میں بدل دیا۔


نتائج:

  1. والدین کی دعائیں، اولاد کی نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
  2. خلوص اور احسان، اقتدار سے زیادہ دلوں میں عزت کا باعث بنتے ہیں۔
  3. جب رب فیصلہ فرماتا ہے، تو فراق کو وصال، اور اندھیرے کو نور بنا دیتا ہے۔
  4. نبیوں کا وصال، صرف خاندان کی خوشی نہیں بلکہ قوموں کی فلاح کا آغاز ہوتا ہے۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ عزت، وصال، اور مقام صرف اقتدار سے نہیں آتے بلکہ والدین کی خوشنودی، خدمت اور خلوص سے ملتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے حکمرانی کے بلند مقام پر رہ کر بھی عاجزی، صلہ رحمی اور وفاداری کو نہ چھوڑا یہی ہے ایک صالح انسان کی حقیقی علامت، اور یہی ہے وہ راستہ جس پر چلنے والا اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔

درج ذیل سوالات کا جواب دیں۔