راہِ اطاعت کا سفر: خلیل اور ذبیح کا خاموش عزم

جب قلبِ مومن اطاعت کی روشنی سے منور ہو جائے، تو ہر قدم عبادت میں ڈھل جاتا ہے اور ہر خاموشی بندگی کی آہنگ بن جاتی ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کا ایمان اُس آفتابِ تسلیم کی مانند ہے جو ہر دور کے سالکوں کو رضا کی راہوں کا چراغ عطا کرتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جہاں عقل خاموش ہے، زبان گُنگ، اور دل سراپا یقین۔
باپ اور بیٹا دونوں ایک ایسے مقام کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں خواہش فنا ہوتی ہے، اور وفا امر ہو جاتی ہے۔
یہ سبق ہمیں اُس سفر کی خوشبو دیتا ہے جس کی ہر سانس خدا کے حکم پر صبر کی چادر اوڑھ کر چلتی ہے،

اگلے دن سحرگاہ کے لمحے، حضرت ابراہیمؑ نے گدھے پر زین کسی، اور ذبیحہ کے لیے مطلوبہ لکڑیاں اپنے دستِ مبارک سے کاٹ کر اُسے لاد دیں۔
حضرت اسحاقؑ کو ہمراہ لیا، اور دو خدام کو ساتھ لے کر اُس متبرک مقام کی طرف روانہ ہوئے جس کے بارے میں خداوندِ ذوالجلال نے اُنہیں حکم عطا فرمایا تھا۔

مسلسل تین دن کی مسافت کے بعد، جب قُرب کا مقام قریب آنے لگا، تو حضرت ابراہیمؑ نے دور سے اُس پہاڑ کے آثار کو پہچان لیا۔
ربانی اشارہ پا کر آپؑ نے اپنے خدمت گزاروں سے فرمایا

تم لوگ یہیں گدھے کے پاس قیام کرو، میں اور اسحاقؑ وہاں پہاڑ پر جائیں گے، عبادت اور قربانی ادا کریں گے، اور پھر تمہارے پاس واپس لوٹ آئیں گے

اس ارشاد کے بعد، حضرت ابراہیمؑ نے قربانی کی لکڑیوں کا گُھٹا حضرت اسحاقؑ کے کندھے پر رکھا، اور خود ایک چھری اور دہکتے ہوئے انگاروں کو تھامے آگے بڑھے۔
دونوں، باپ اور بیٹا، خاموشی سے اس پہاڑی راستے پر چلنے لگے جہاں دل کی دھڑکنیں بھی عبادت بن چکی تھیں۔
نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی سوال — صرف خاموشی، جو ایمان کی گہرائی کی گواہ تھی۔

چلتے چلتے حضرت اسحاقؑ نے ادب اور محبت کے ساتھ خاموشی کو توڑا اور کہا
ابّا جان

حضرت ابراہیمؑ نے شفقت سے جواب دیا
فرماؤ، میرے بیٹے

حضرت اسحاقؑ نے عرض کیا
ہم لکڑیاں اور دہکتے کوئلے تو ہمراہ لے آئے ہیں، مگر قربانی کے لیے جانور کہاں ہے؟

حضرت ابراہیمؑ نے سکونِ دل اور کامل یقین کے ساتھ ارشاد فرمایا
اَلْمُدَبِّرُ خود ہی تدبیر فرمائے گا، میرے بیٹے

یہ کہہ کر دونوں، دل میں یقین اور زبان پر سکوت لیے، مقامِ قُرب کی جانب بڑھتے گئے۔
حتیٰ کہ وہ مقام آن پہنچا جس کی نشاندہی خداوندِ کریم نے فرمائی تھی۔

پھر حضرت ابراہیمؑ نے وہاں چبوترہ ترتیب دیا، اوپر تلے پتھر رکھ کر ایک قربان گاہ تعمیر کی، اُس پر لکڑیاں قرینِ ترتیب رکھی گئیں۔
اور پھر اپنے محبوب بیٹے کو، نہایت محبت اور مکمل اطاعت کے ساتھ، رسیوں سے باندھ کر اُن ہی لکڑیوں پر لٹا دیا۔

شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں

سِرِّ عشق است این، کہ جان در راہِ دوست
باز دی، با لبِ خندان گفتہ اوست

تشریح

شیخ سعدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
یہی تو رازِ عشق ہے کہ جب محبوب طلب کرے، تو جان بھی ہنستے ہوئے لوٹا دی جائے۔

یہی حال حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ کا تھا —
نہ آنکھ میں تردّد، نہ دل میں شکوہ، نہ زبان پر کوئی سوال۔
یہ سکوت دراصل عشقِ الٰہی کی صدائے باطن تھی۔
اور یہ یقین کہ جو رب طلب کرتا ہے، وہی عزت کے ساتھ واپس بھی عطا فرماتا ہے —
اس ایمان کی معراج ہے۔

نتائج

اطاعت کا اصل مقام وہی ہے جب انسان خاموشی سے رب کے حکم پر چلتا چلا جائے، بغیر کسی تردد کے
حضرت اسحاقؑ کی معصومیت اور حضرت ابراہیمؑ کی خالص تسلیم، بندگی کی اعلیٰ ترین علامتیں ہیں
قربانی صرف ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے محبوب کو رب کے سپرد کرنے کا روحانی اعلان ہے
ایمان کا اصل حسن یہ ہے کہ سوال کی گھڑی میں بھی یقین متزلزل نہ ہو
خدا پر بھروسا، زندگی کے ہر مقام پر روشنی عطا کرتا ہے — خصوصاً اُن لمحوں میں جب آنکھ کو کوئی راہ دکھائی نہ دے

اختتامیہ

یہاں بیان رکتا ہے، لیکن دل کے اندر ایک گہرا پیغام جاگزیں ہو جاتا ہے۔
ہماری زندگیوں میں بھی “موریاہ” آتا ہے — کبھی کسی آزمائش کی صورت میں، کبھی کسی قربانی کے لمحے میں، کبھی خاموش تسلیم کے امتحان میں۔

کیا ہم بھی خلیلؑ کی طرح کہہ سکتے ہیں؟
حاضر ہوں، اے میرے رب

جب بندہ دل سے یہ کہہ دے،
تو زمین پر خاموشی اور آسمان پر گواہی ایک ساتھ قائم ہو جاتی ہے
اور تب اطاعت کی وہ تاریخ رقم ہوتی ہے جو رہتی دنیا تک بندگانِ مخلص کے لیے مینارۂ نور بن جاتی ہے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں