وعدۂ نجات کی پہلی نوید

جب حضرت آدمؑ اور ان کی زوجہ نے شجرِ ممنوعہ کا پھل چکھا اور فطرتِ انسانی گناہ کے لمس سے پہلی بار لرز گئی، تو رحمتِ ربّانی نے اپنے عدل کو ایک عظیم پیشگوئی سے ہم آہنگ کر دیا۔ شیطان، جو سانپ کے روپ میں مکاری و فریب کا ذریعہ بنا، اس پر لعنت کی گئی اور اعلانِ عدل کے ساتھ ربّ کریم نے فرمایا: “چونکہ تُو نے یہ ظلم کیا، تُو تمام جانوروں میں ملعون ہوگا۔ زمین تیرا بستر ہوگی اور تُو عمر بھر پیٹ کے بل رینگے گا۔ اور میں تیرے اور عورت کے درمیان، اور تیری نسل اور اس کی نسل کے درمیان دشمنی ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گی اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا۔”

یہ الفاظ کسی عام سزا کا اعلان نہ تھے بلکہ انسانیت کی گناہ آلود تاریخ میں ایک عظیم الوہی وعدے کی پہلی کرن تھے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب نجات دہندہ کے ظہور کی نوید دی گئی، جو عورت کی نسل سے پیدا ہوگا، جو فریب دینے والے کو مغلوب کرے گا، جو شیطان کے زہر کو بے اثر کرے گا، اور انسان کو دوبارہ خالقِ مطلق سے جوڑ دے گا۔

یہ پہلی پیشگوئی تھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی، جو بغیر باپ کے، پاک و مقدس عورت کی نسل سے جنم لیں گے۔ وہ جن کی زندگی، تعلیمات، معجزات اور بالآخر قربانی، اسی وعدۂ ربانی کی تکمیل ہوں گی۔ وہ جنہیں “کلمۃُ اللّٰہ” اور “روحُ اللّٰہ” کہا گیا، وہ جن کی صلیب پر دی گئی قربانی، انسانیت کے لیے دائمی نجات اور گناہوں کے فدیے کا ذریعہ بنے گی۔ یہی وعدہ تھا جو عدن کے باغ میں فریب کے فوراً بعد دیا گیا، اور یہی وعدہ عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی صورت میں کامل ہوا۔


سعدی شیرازی فرماتے ہیں:

“نہ بینی کہ ہر جا کہ فتراکِ اوست،
زِ رحمت نشان است و از قہر، بوست”

یعنی: “کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ جہاں کہیں اُس (خالق) کی کمر کا دامن جھلکتا ہے، وہاں اُس کی رحمت کی مہک ہے، اور قہر کا صرف سایہ۔”

تشریح:
ربِ کریم کے عدل میں بھی رحمت کا پہلو پوشیدہ ہے۔ جہاں لعنت کا اعلان ہوا، وہیں نجات کا وعدہ بھی فرمایا گیا۔ سزا کے فوراً بعد نجات دہندہ کی نوید اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ رب بندے کی لغزش پر اُسے چھوڑتا نہیں، بلکہ پلٹنے کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔


نتائج:

  1. شیطان کا مکروفریب، رب کے عدل کا سبب بنا لیکن ساتھ ہی اس کی رحمت کا در بھی وا ہو گیا۔
  2. سانپ کو ملعون قرار دے کر اُسے زمین پر ذلت کی زندگی کا حکم ملا۔
  3. عورت کی نسل سے ایک نجات دہندہ کی آمد کا اعلان، گناہ کے خلاف ایک الٰہی جواب تھا۔
  4. حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وعدے کی تکمیل ہیں، جن کی قربانی نے انسان کو مکمل نجات کا راستہ عطا کیا۔
  5. ربِ رحیم کا اندازِ گفتگو تربیتی، رحمت بھرا اور مستقبل کی امید سے بھرپور ہے۔

اختتام:

یہ سبق ہمیں صرف فریب، سزا یا نافرمانی کی داستان نہیں سناتا، بلکہ یہ اس خالقِ حکیم کا آئینہ دکھاتا ہے جو سزا سے پہلے تعلیم دیتا ہے، اور قہر کے بیچ میں رحم کی روشنی جگاتا ہے۔ عدن کے باغ میں دی جانے والی یہ پیشگوئی، دراصل قیامت تک کی انسانیت کے لیے امید، محبت، اور نجات کی علامت ہے۔ آج بھی اگر کوئی دل سے اس ربِ عظیم کی طرف لوٹے، تو وہی وعدہ، وہی محبت، اور وہی نجات اُسے حاصل ہو سکتی ہے جو حضرت عیسیٰؑ کی ذات سے وابستہ کی گئی تھی۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔