پہلی نافرمانی اور انسان کی لغزش
وسوسے کی صدائے خفی دل میں اتر چکی تھی۔
فریب کا پردہ نرم تھا، مگر اس کے پیچھے نافرمانی کی تیز دھار چھپی ہوئی تھی۔
اور آخرکار، وہ لمحہ آ گیا — جب انسان اپنی پہلی لغزش میں داخل ہوا۔
بی بی حواؓ نے بار بار اس درخت کو دیکھا،
جس کے بارے میں ربّ العالمین نے فرمایا تھا کہ “اس کے قریب نہ جانا، ورنہ نقصان اٹھاؤ گے!”
مگر جب وہ اس درخت کے قریب پہنچیں، اُس کے پھل کو دیکھا —
تو اُسے دل کش، خوش رنگ، اور ذائقہ دار پایا۔
یہی وہ لمحہ تھا — جس میں بصیرت کا جھوٹا وعدہ، حقیقت پر غالب آ گیا۔
بی بی حواؓ نے ہاتھ بڑھایا، شجرِ ممنوعہ کا پھل توڑا —
اور اُس میں سے کچھ کھا لیا۔
پھر، وہ حضرت آدمؑ کے پاس گئیں —
اور اپنے شریکِ حیات سے کہا:
“یہ کھاؤ، یہ تمہیں وہ بصیرت دے گا جس سے تم خیر و شر کا فیصلہ خود کر سکو گے!”
حضرت آدمؑ نے بھی اُس پھل کو ہاتھ میں لیا —
اور چکھ لیا۔
جیسے ہی دونوں نے اُس پھل کو چکھا —
تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔
لیکن جیسا شیطان نے وعدہ کیا تھا، ویسا نہ ہوا۔
نہ کوئی روحانی بصیرت حاصل ہوئی،
نہ کوئی بلند مرتبہ عطا ہوا،
بلکہ ایک نئی کیفیت نے دلوں کو ڈھانپ لیا:
شرمندگی اور برہنگی۔
دونوں کو یہ محسوس ہوا کہ وہ ننگے ہیں۔
تو فوراً انجیر کے پتے جوڑ کر اپنے جسموں کو ڈھانپنے لگے۔
یہ شرم، یہ ہچکچاہٹ، یہ گھبراہٹ —
انسان کی پہلی نافرمانی کا پہلا نتیجہ تھی۔
: حکیم ناصرخسروؒ
خطا زِ آدم آمد و زان پس ندامت آمدش
جنّت فُتاد از کف، چو ترکِ حکمِ یار کرد
تشریح:
حکیم ناصرخسروؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت آدمؑ سے خطا سرزد ہوئی، تب ہی ندامت کا دروازہ کھلا۔
یہی نافرمانی، جنت کے چھن جانے کا سبب بنی۔
اور یہی سبق ہے — کہ ربّ کے حکم کو ترک کرنا، چاہے کسی وعدے، کسی فریب، یا کسی جذبے سے ہو، آخرکار روحانی نقصان کا باعث بنتا ہے۔
نتائج:
- پہلا گناہ کسی بڑی جنگ یا شور سے نہیں، ایک نرم وسوسے اور لمحاتی کمزوری سے ہوا۔
- انسان کی فطرت میں سادہ دلی ہے، جس سے وہ فریب کا شکار ہو سکتا ہے۔
- ربّ کا حکم ظاہراً چھوٹا ہو، مگر اس کی حکمت عظیم ہوتی ہے۔
- نافرمانی ہمیشہ شرمندگی لاتی ہے، اور اطاعت ہمیشہ قرب عطا کرتی ہے۔
اختتام:
یہ سبق ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کی پہلی آزمائش اُس کے اندر ہی سے شروع ہوئی —
دل کی نرمی، عقل کا شک، اور فریب کی خوشبو نے مل کر پہلا گناہ رقم کیا۔
لیکن یہی وہ لمحہ تھا، جس نے توبہ، انکساری، اور بندگی کی راہ کھولی۔
کیونکہ گناہ کی حقیقت یہ نہیں کہ وہ کتنی بڑی لغزش ہے،
بلکہ یہ ہے کہ ہم اُس کے بعد ربّ کے در پر جھکیں یا نہیں۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔