طوفانِ قہار کا غلبہ

جب زمیں گناہوں کی بو سے بوجھل ہو چکی، جب ظلم، بے حیائی اور انکارِ حق نے آسمان تک نالہ بلند کیا، تو مالکِ یوم الدین، الجبّار و القھّار نے اپنے عذاب کو جاری فرما دیا۔ وہ عذاب جو صرف پانی نہ تھا بلکہ عبرت کی ایک لہلہاتی تفسیر تھی۔ سات دن کی تنبیہ کے بعد، آسمان کے دریچے کھلے، زیرِ زمیں کے تمام چشمے ابھر آئے، اور زمین و آسمان کے درمیان ایک ایسا طوفان پیدا ہوا جس نے عدلِ الٰہی کی زبردست گواہی دے دی۔

یہ موسلا دھار بارش چالیس دن و رات جاری رہی، اور پانی بڑھتا گیا یہاں تک کہ حضرت نوحؑ کی کشتی آہستہ آہستہ زمین سے اُٹھنے لگی۔ زمین کے درخت، اونچی عمارتیں، حتیٰ کہ بلند ترین پہاڑ بھی اس طوفان کی زد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ پانی نے ان کی چوٹیوں سے بھی دس ہاتھ بلند ہو کر ان کو نگل لیا، اور زمین پر نظر آنے والی ہر شے پانی کے پردوں میں چھپ گئی۔

وہ کشتی جس پر اہلِ ایمان، حیوانات کے جوڑے، اور اطاعت گزار بندے سوار تھے، بحرِ فنا پر نجات کا ایک چلتا ہوا جزیرہ بن چکی تھی۔ ہر وہ ذی نفس جو کشتی سے باہر تھا، ہلاک ہو چکا۔ درندے، چرندے، پرندے، رینگنے والے، اور انسان—سب فنا کی آغوش میں چلے گئے۔ فقط وہی بچے جو ربِّ رحیم کے حکم کی پناہ میں تھے۔

یہ طوفان ڈیڑھ سو دن تک جاری رہا، اور اس دوران پہاڑوں کی چوٹیاں بھی پانی کی چادر سے ڈھکی رہیں۔ ایسا منظر تھا کہ جس میں زندگی کی ہر سانس کو ایک سبق، ہر لہر کو ایک فریاد، اور ہر قطرے کو ایک ندا سمجھا جا سکتا تھا—ندا اُس حق کی، جو مخلوق کو برائی پر باقی نہیں رکھتا۔


: ناصر خسرو

“چو قہر آید از دادگر بر زمین
نباشد بجز عدل و حکمت نگین”

تشریح: جب ربِّ عدل کی طرف سے زمین پر قہر نازل ہوتا ہے، تو وہ قہر بھی عدل و حکمت کی تجلّی ہوتا ہے۔ ناصر خسرو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ قہرِ الٰہی بے بنیاد نہیں ہوتا، بلکہ وہ گناہوں، ظلم اور انکار کے خلاف الٰہی قانون کا اظہار ہے۔ طوفانِ نوح بھی اسی عدل کی روشنی میں ایک نشانی بنا۔


نتائج:

  1. قہرِ الٰہی برائی کے خلاف ایک اٹل فیصلہ ہے، جو صرف اطاعت گزاروں کو تحفظ دیتا ہے۔
  2. حضرت نوحؑ کی کشتی اطاعت اور ایمان کی علامت بن کر محفوظ رہی، باقی سب فنا ہو گئے۔
  3. طوفان صرف جسمانی ہلاکت نہ تھا بلکہ روحانی تطہیر اور برائی کی جڑ سے صفائی بھی تھا۔
  4. ربّ القھار اپنے بندوں کو وقت دیتا ہے، مگر جب حد پار ہو جائے تو قضا نازل ہوتی ہے۔
  5. اللہ تعالیٰ کی قدرت ہر شے پر غالب ہے، اور وہ جسے چاہے نجات دے، جسے چاہے فنا کر دے۔

اختتام:

یہ سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ گناہ، ظلم، اور ضد کا انجام ہمیشہ ہلاکت ہے، اور ربّ کی پناہ صرف اُسی کو ملتی ہے جو اس کی رضا کو اپنی حفاظت سمجھتا ہے۔ نوحؑ کی کشتی، پانیوں میں تیرتی ایک ایسی تمثیل تھی جو ہر دور کے انسان کو یہ آواز دیتی ہے کہ “جو حق کے ساتھ ہے، وہ طوفان میں بھی سلامت ہے۔” طوفان کے بادل چھا سکتے ہیں، زمین ڈوب سکتی ہے، لیکن بندگی کی کشتی کبھی غرق نہیں ہوتی۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔