سبق نمبر 3۔ حضرت موسیٰ ملکِ مصر میں (حصہ اول)

مصر کے سفر دوران تجلیء الٰہی کے ذریعے خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا! اگرچہ تم مصر واپس پہنچ کر فرعون کے دربار میں یہ تمام معجزات وہاں دکھاؤ گے جو میں نے تمہیں بخشے ہیں لیکن فرعون کا دل سخت ہوگا اور فرعون بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دے گا۔ تب تم فرعون سے کہنا: خدا تعالیٰ کا فرمان ہے:” بنی اسرائیل مجھے یوں عزیز ہے جیسے کسی کو کوئی اپنا پہلوٹھا! فرعون! میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دے دو تاکہ وہ میری عبادت کرسکیں ورنہ یاد رکھو! میں مصر بھر کے پہلوٹھوں میں کسی کو جیتںا نہ چھوڑوں گا!
ادھر دوسری طرف خدا تعالیٰ نے حضرت ہارون کے دل میں یہ بات القا فرمادی:” صحرا کی طرف جاؤ! وہاں تمہاری ملاقات تمہارے بھائی موسیٰ سے ہوگی۔ چناچہ حضرت ہارون چل پڑے اور سفر کرتے کرتے کوہِ طور کے مقام پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر حضرت ہارون نے جیسے ہی حضرت موسیٰ کو دیکھا والہانہ انداز میں اُن سے لپٹ گئے اور حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ کے گال پر بوسہ لیا۔
حضرت موسیٰ نے پیغامِ الٰہی اپنے بھائی حضرت ہارون تک پہنچایا اور ان تمام نشانات کا تذکرہ بھی کیا جو خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو عطا فرمائے تھے۔ الغرض حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے مل کر عازمِ مصر ہوئے اور وہاں پہنچ کر بنی اسرائیل کے سرداروں کو ایک جگہ جمع کیا۔ حضرت ہارون نے پیغامِ الٰہی بنی اسرائیل کے سامنے بیان کیا اور بطور دلیل حضرت موسیٰ نے خدا تعالیٰ کے عطا کردہ نشانات بھی پیش کئے۔ ان نشانات کو دیکھ کر بنی اسرائیلی ایمان لے آئے۔ جب بنی اسرائیل کو معلوم ہوا کہ اُن کا رب ان کی حالتِ زار پر نظر رکھتا چلا آرہا ہے تو بنی اسرائیلیوں کی پیشانیاں سجدے میں جھک گئیں۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون فرعون کے دربار میں پہنچے اور یہ پیغامِ الٰہی فرعون کو سنایا! خدا تعالیٰ بنی اسرائیل کا رب فرماتا ہے کہ:” بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دے دو تاکہ وہ بیابان میں میرے فرمان کے مطابق میری عبادت کریں اور عید منائیں۔
فرعون نے مغرور لہجے میں جواب دیا! اللّٰہ کون ہے کہ میں اُس کے کہنے پر بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دوں؟ میں کسی ‘ اللّٰہ’ کو نہیں جانتا اور نہ ہی بنی اسرائیلیوں کو کہیں جانے کی اجازت دوں گا۔
حضرت موسیٰ و حضرت ہارون نے ایک دفعہ پھر کہا! ہماری قوم بنی اسرائیل سے دائمی عہد کرنے والے رب نے بذات خود ہمیں حکم دیا ہے ہم مصر جائیں! بہتر ہے کہ ہمیں چند دن کے لئے جانے کی اجازت دے دی جائے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ صحرا میں جاکر اپنے رب کے حضور قربانیاں پیش کریں تاکہ وہ ہمیں کسی مہلک بیماری یا کسی حملہ آور کے ہاتھوں موت کے گھاٹ نہ اتر وادے۔
فرعون نے غصے سے کہا! موسیٰ اور ہارون تم کیوں خواہ مخواہ بنی اسرائیلیوں کو کام کاج سے ہٹا کر لے جانا چاہتے ہو؟ بڑی مشکل سے مزدوری کی اتنی بڑی تعداد ہمیں مل پائی ہے اور تم ان سب کو ایک ساتھ تین دن کی چھٹی پر لے جانا چاہتے ہو؟ چلو جاؤ، جاکر اپنا کام کرو!
اسی دن فرعون نے بنی اسرائیل میں سے مقرر کئے گئے مقدمین اور مصری داروغوں کے لئے یہ حکم جاری کردیا! آج کے بعد بنی اسرائیل کے لوگوں کو اینٹیں بنانے کے لئے بھوسا نہ دیا جائے! انہیں کہو کہ خود جاکر بھوسا لائیں اور اتنی ہی اینٹیں بنائیں جتنی پہلے بناتے تھے۔ اس سے کم اینٹوں کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فرعون نے کہا کہ بنی اسرائیل کے لوگ کام چور ہوگئے ہیں اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں جاکر اپنے خدا تعالیٰ کے حضور قربانی کرنے دو۔ بنی اسرائیلیوں کا کام اس قدر بڑھا دیا جائے کہ اُن کے پاس اِدھر اُدھر کی باتوں پر سوچنے کے لئے وقت ہی نہ رہے۔
چناچہ فرعون کے داروغے اور اسرائیلی مقدمین بنی اسرائیلیوں کے پاس گئے اور کہا! شاہِ مصر فرعون کا فرمان ہے کہ آج کے بعد بنی اسرائیلیوں کو بھوسا فراہم نہ کیا جائے۔ اب خود جاؤ، جہاں سے ممکن ہوسکے بھوسا تلاش کرکے لاؤ اور یاد رکھو! کام میں پہلے کی نسبت کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
پس بنی اسرائیل کے لوگ فرعون کے خوف سے مارے مارے پھرنے لگے کہ کھیتوں میں بچ رہنے والا گھاس پھونس ہی مل جائے۔ اُدھر بنی اسرائیلیوں سے بیگار لینے والے انہیں ہنکا کر اتنی ہی اینٹیں بنانے کے لئے مجبور کرتے رہے جتنی پہلے بنایا کرتے تھے۔
جب مطلوبہ تعداد میں اینٹیں تیار نہ ہوسکیں تو فرعون کے دراوغوں نے اسرائیلی مقدمین کو مارا پیٹا اور ان سے باز پرس کی:” آخر تم لوگ اتنی اینٹیں کیوں نہیں بنا رہے ہو جتنی پہلے بناتے تھے؟
چناچہ اسرائیلی مقدمین فرعون کے دربار میں حاضر ہوئے اور دہائی دیتے ہوئے کہا! حضور والا اپنے خادموں پر رحم کریں۔ ہمیں بھوسا تو نہیں دیا جا رہا اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اتنی اینٹیں تیار کروائی جائیں جتنی پہلے ہوتی تھیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہمیں کوڑوں سے مارا بھی جا رہا ہے! یہ زیادتی ہے سراسر زیادتی!
فرعون نے بے رحمی سے کہا! ایسا کچھ نہیں! تم لوگ صرف کام چور ہو بس اس لئے اپنے خدا کا نام استعمال کرکے بہانے تراش رہے تھے کہ ہمیں قربانی کے لئے جانے دیجئے۔ کوئی بھوسا نہیں ملنے کا تم لوگوں کو! جاؤ اور چپ چاپ اتنی ہی اینٹیں بناؤ جتنی پہلے بنایا کرتے تھے۔ فرعون کی طرف سے صاف انکار سن لینے کے بعد بنی اسرائیلیوں کو احساس ہوگیا کہ اب بچنے کی کوئی امید نہیں چارو ناچار یہ سب کام کرنا ہی پڑے گا۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔