انکارِ فرعون اور آزمائشِ بنی اسرائیل
جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندۂ خاص کو منصبِ نبوت پر سرفراز فرماتا ہے، تو اس کی راہ میں آزمائشیں، دشمنوں کی سرکشی، اور قوم کی بیقراری ایک روحانی امتحان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ، وحی الٰہی کی صداقت، رسالت کا عظیم بار، اور دل میں امت کی محبت لیے مصر کی طرف روانہ ہوئے۔
ربّ کائنات نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا: “اے موسیٰ! جب تو مصر پہنچے گا، فرعون کو میرے وہ معجزات دکھا دینا جو میں نے تجھے بخشے ہیں۔ لیکن یاد رکھ، فرعون کا دل سنگین ہے، وہ میری بات قبول نہ کرے گا۔ تب تو اس سے کہنا: بنی اسرائیل میرے لیے ایسے ہیں جیسے کسی کے ہاں پہلا نورِ نظر، پہلوٹھا بیٹا۔ اگر تُو نے انہیں میری عبادت سے روکا، تو میں مصر کے ہر پہلوٹھے کو ہلاک کر دوں گا!”
ادھر حضرت ہارونؑ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا: “صحرا کی طرف روانہ ہو، وہاں تیرے بھائی موسیٰؑ سے ملاقات ہوگی۔” چنانچہ حضرت ہارونؑ چل پڑے، اور جب کوہِ طور پر حضرت موسیٰؑ سے ملاقات ہوئی تو جذبۂ محبت میں لپٹ گئے، گالوں پر بوسہ دیا اور رسالت کے نورانی پیغام کو سینہ کشادہ سے قبول کیا۔
حضرت موسیٰؑ نے اللہ کا حکم، معجزات اور نشانیاں حضرت ہارونؑ کو سونپیں، اور دونوں برادرانِ نبوت مصر کی طرف روانہ ہو گئے۔ مصر پہنچ کر بنی اسرائیل کے سرداروں کو جمع کیا، اور حضرت ہارونؑ نے ان کے سامنے فرمانِ الٰہی کو بیان فرمایا۔ حضرت موسیٰؑ نے اللہ کی عطا کردہ نشانیاں دکھائیں۔ جب قوم نے یہ عظیم نشان دیکھے تو اُن کے دل اللہ کی عظمت سے بھر گئے، اور وہ سجدہ ریز ہو گئے، شکر کے آنسو بہا کر کہنے لگے: “ہمارا رب ہم پر مہربان ہے، وہ ہماری آہ و بکا سن چکا ہے۔”
پھر حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ فرعون کے دربار میں حاضر ہوئے۔ انتہائی وقار اور ربّانی جلال کے ساتھ فرمایا: “اللہ، جو بنی اسرائیل کا پروردگار ہے، فرماتا ہے کہ ان کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں میرے حضور عبادت کریں اور عید منائیں۔”
فرعون نے کبر و غرور سے جواب دیا: “کون ہے اللہ؟ کہ میں اس کے فرمان پر عمل کروں؟ میں نہ کسی اللہ کو جانتا ہوں، نہ بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دوں گا۔”
نبیوں نے صبر اور حکمت سے دوبارہ عرض کیا: “ہمارا ربّ ہمیں حکم دے چکا ہے کہ ہم چند روز بیابان میں جاکر قربانیاں پیش کریں۔ اگر اجازت نہ ملی تو ہم پر کوئی عذاب، مرض یا آسمانی بلا آ سکتی ہے۔”
فرعون نے طیش میں آ کر کہا: “تم دونوں محض قوم کو کاہلی اور بغاوت سکھا رہے ہو! جاؤ، اپنا کام کرو!”
پھر اس نے ظالمانہ فرمان صادر کیا: “آج سے بنی اسرائیل کو بھوسا فراہم نہ کیا جائے! وہ خود میدانوں میں جا کر بھوسا لائیں، اور اینٹیں اتنی ہی بنائیں جتنی پہلے بناتے تھے۔ اگر کمی ہوئی تو کوڑے برسیں گے!”
اس فرمان کے بعد داروغے اور مقرر شدہ مقدمین بنی اسرائیلیوں کے پاس آئے اور کہا: “اب خود جا کر بھوسا تلاش کرو! لیکن اینٹوں کی مقدار وہی رہے گی!”
بیچارے مظلوم، خوفِ فرعون میں کھیتوں، ویرانوں میں سرگرداں ہو گئے۔ کسی جگہ سے گھاس پھونس، کہیں سے خشک ٹہنیاں تلاش کرتے رہے، اور پھر بھی اگر اینٹیں کم بنتیں تو داروغے کوڑے برساتے۔
جب بے بسی حد سے بڑھ گئی تو اسرائیلی مقدمین فرعون کے دربار میں فریاد لے کر پہنچے: “اے بادشاہ! ہم پر رحم فرما، ہمیں بھوسا نہیں دیا جاتا، اور کوڑوں کی ضرب سہنی پڑتی ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے!”
فرعون نے برہمی سے کہا: “یہ تمہاری سستی ہے، تم اپنے رب کا نام بہانہ بنا کر مجھ سے چھٹی مانگتے ہو۔ کوئی بھوسا نہیں، کوئی نرمی نہیں، جاؤ اور اپنا کام مکمل کرو!”
اس درِ انکار اور ظلم کے بعد بنی اسرائیل کو یقین ہو گیا کہ آزادی کی کوئی راہ اب محض کسی ظاہری تدبیر سے نہ نکلے گی بلکہ ربّ کی غیبی نصرت ہی واحد سہارا ہے۔
حضرت بیدلؒ
چو بُرّدند چراغ از طاق ایوان
دلِ شب را ز آتش راز کردند
تشریح:
جب ایوان سے چراغ چھین لیا جاتا ہے، تو وہی اندھیری شب اللہ کے رازوں کو چمکاتی ہے۔ بنی اسرائیل کی بے نوری، ربّ کی نصرت کا پیش خیمہ بننے والی تھی۔
نتائج:
- کفر و ظلم کی حکومت وقتی ہوتی ہے، مگر صدائے نبی ابدی اثر رکھتی ہے۔
- اللہ اپنے مظلوم بندوں کی فریاد کو کبھی رائگاں نہیں جانے دیتا۔
- سجدہ شکر، مصیبت کے اندھیروں میں سب سے روشن چراغ ہے۔
- نبی کا پیغام اگرچہ پہلے انکار سے ٹکرائے، آخرکار فتح حق کی ہوتی ہے۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ فرعونیت کا انجام قریب ہوتا ہے جب ایک نبی، اللہ کا نام لے کر دربارِ باطل میں حق کی صدا بلند کرتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کی استقامت، ان کے لبوں پر ربّ کا پیغام، اور بنی اسرائیل کی سجدہ گزار پیشانیاں گواہی دیتی ہیں کہ وہی کامیاب ہے جو آزمائش میں بھی اللہ پر یقین رکھے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔