حضرت یوسفؑ کا مصری آزمائش سے گزرنا

جب روح خدا کے ذکر سے مہکنے لگے، تو نفس کی آزمائش اس پر سایہ ڈالنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ مگر جس دل میں رب کی حضوری بسی ہو، وہاں گناہ کا زہر اثر نہیں کرتا۔ حضرت یوسفؑ کا یہ واقعہ محض ایک غلام کی داستان نہیں، بلکہ ایک ایسے عفیف دل کا آئینہ ہے جو ہر وسوسے کے سامنے رب کی رضا کی ڈھال لیے کھڑا رہا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب عزت تخت سے نہیں، بلکہ تقویٰ کی خامشی سے چمکتی ہے۔

حضرت یعقوبؑ کی آنکھیں، جو جدائی کے غم میں نم تھیں، اُدھر حضرت یوسفؑ کی تقدیر مصر کی سرزمین میں نئے امتحان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسمٰعیلی قبیلے کے سوداگر اُنہیں مصر لے گئے اور عزیزِ مصر فُوطِیفار کے ہاتھ بیچ دیا—جو فرعون کے ذاتی محافظوں کا سردار تھا۔

یوں حضرت یوسفؑ کو اُس قصر میں ٹھکانہ ملا جو شاہی قید خانے کے پہلو میں تھا۔ لیکن وہ غلامی کا مقام نہ تھا—وہ رب کی رضا کا ایک اور امتحان تھا۔ حضرت یوسفؑ نے جس شوق اور صداقت سے اپنے فرائض انجام دیے، اُس کی گواہی خود فُوطِیفار نے دی۔ اُس نے نہ صرف آپؑ کو اپنا قابلِ اعتماد خادم بنایا بلکہ گھر کی تمام دولت، کھیتوں اور مویشیوں کا انتظام بھی آپ کے سپرد کر دیا۔

رب کے محبوب بندے جہاں بھی ہوتے ہیں، وہ وہاں برکت لے کر آتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ کی موجودگی نے فُوطِیفار کے گھر کو برکت کا گہوارہ بنا دیا، یہاں تک کہ اس کا کل اختیار یوسفؑ کے ہاتھ میں آ گیا—اور وہ خود فقط اپنی طعام گاہ کا مہمان بن کر رہ گیا۔

مگر حسن جب تقویٰ کے لباس میں ہو، تو شیطان کی نگاہ اس پر ضرور ٹھہر جاتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کی صورت، قامت اور حیا ایسی تھی کہ فُوطِیفار کی بیوی ان کی طرف مائل ہو گئی۔ وہ اشارات، کنایات، اور دلفریب انداز سے آپؑ کو اپنی طرف کھینچنے لگی۔ مگر حضرت یوسفؑ کی زبان پر تقویٰ کی صراحت تھی:

“اے بی بی! میرے آقا نے جو اعتماد مجھ پر کیا ہے، اُس کا تقاضا ہے کہ میں اُس کے حق میں خیانت نہ کروں۔ اور تُو اُس کی زوجہ ہے۔ اگر میں تیرا کہا مانوں، تو یہ صرف میرے آقا سے بےوفائی نہ ہو گی—یہ میرے رب کے حضور ایک سنگین گناہ ہو گا۔”

آپؑ کی زبان خاموش تھی، مگر دل کا نور زبان سے بھی بلند گواہی دے رہا تھا۔ یہ نور جب دل کو بھر دے تو گناہ کا اندھیرا راستہ نہیں پا سکتا۔

پھر وہ دن آیا جب حضرت یوسفؑ کسی کام سے زنان خانے میں داخل ہوئے۔ وہاں تنہائی تھی، اور اس تنہائی میں فُوطِیفار کی بیوی نے آپؑ پر دست درازی کی۔ حضرت یوسفؑ نے خود کو چھڑایا اور باہر نکل گئے—مگر چوغہ اُس کے ہاتھ میں رہ گیا۔

جب وہ دروازے پر تنہا رہ گئی، تو اس نے سازش کی چادر اوڑھ لی اور نوکروں کو بلا کر چیخنے لگی:
“یہ عبرانی غلام، جسے میرے شوہر نے سر پر بٹھا رکھا ہے، میرے کمرے میں گھس آیا! خدا کی پناہ! میں نے شور مچایا تو یہ چوغہ چھوڑ کر بھاگ نکلا۔”

جب فُوطِیفار آیا تو اس نے بھی یہی فریب دہرا دیا۔ ایک سازش، جو حیاء پر کیچڑ پھینکنے کے لیے بُنی گئی تھی، اُس نے حضرت یوسفؑ کو قید خانے تک پہنچا دیا۔

لیکن کیا وہ قید تھی؟
نہیں!
یہ وہ لمحہ تھا جب ایک بندہ اپنے رب کے لیے اپنی عزت، اختیار اور آزادی کو قربان کر کے، دل کا دروازہ صرف اُس کی رضا کے لیے کھول دیتا ہے۔


(شیخ فخرالدین عراقی):

خویش را در دام دیدم، چون نظر بر یار رفت
زخم بر دل خوردہ بودم، مرہم از دیدار رفت

تشریح:
شیخ فخرالدین عراقیؒ فرماتے ہیں کہ جب دل گناہ کے جال میں الجھا دکھائی دے، مگر آنکھ محبوبِ حقیقی کے دیدار کی طرف اٹھ جائے، تو وہی نظر زخموں کا مرہم بن جاتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کے دل میں خدا کی حضوری اتنی راسخ تھی کہ وہ ہر وسوسے سے بچ نکلے۔ انکار اُنہوں نے عورت سے کیا، مگر رضا خدا سے پائی۔ یہی عشقِ خالص کی سب سے بلند مثال ہے۔


نتائج:

  1. پاکدامنی وہ شعور ہے جو انسان کو رب کی حضوری میں ثابت قدم بناتا ہے۔
  2. وقتی آزمائش اگر تقویٰ سے قبول کی جائے تو وہی قید، خدا کی بارگاہ میں عزت بن جاتی ہے۔
  3. حضرت یوسفؑ نے دنیا کی سب سے بڑی خواہش کے سامنے صبر کا پہاڑ بن کر دکھایا۔
  4. خدا پر بھروسا انسان کو نہ صرف فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ باطن کو روشن کرتا ہے۔

اختتامی خیال:

یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ نفس کی ہر آزمائش، رب کی رضا کا ایک نیا زینہ بن سکتی ہے بشرطیکہ دل میں خوفِ خدا ہو، اور نیت میں اخلاص ہو۔ حضرت یوسفؑ نے عزت کی وہ معراج پائی جس کی ابتدا قید سے اور انتہا سلطنت سے ہوئی، مگر بیچ میں جو ستون تھا، وہ صرف عفت تھا۔ وہی عفت جو مردِ مؤمن کی اصل شناخت ہے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔