راکھ کا معجزہ اور فرعون کی سنگدلی

جب کوئی دل ہدایت سے منہ موڑ لے، اور ظلم اپنے انجام کو بھول جائے، تو ربّ العالمین اپنی قدرت کو ایسے انداز میں ظاہر فرماتا ہے کہ آسمان اور زمین گواہی دیتے ہیں کہ وہی ربّ، قہار بھی ہے اور حکیم بھی۔

فرعون کی مسلسل نافرمانی کے بعد، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو مخاطب فرمایا:
“اے موسیٰ! کسی بھٹی سے مٹھی بھر راکھ لو، اور جب فرعون کے سامنے جاؤ، تو اسے آسمان کی طرف اچھال دینا۔”
پھر ارشاد ہوا:
“یہ راکھ ہوا کے دوش پر پورے مصر میں پھیل جائے گی، اور جب واپس زمین پر گرے گی، تو ہر مصری کے جسم پر اور اُن کے جانوروں پر پھوڑے اور پھپھولے نمودار ہو جائیں گے، جو دردناک زخموں میں بدل جائیں گے۔”

حضرت موسیٰؑ نے ربّ کے حکم کی تعمیل کی۔ وہ ایک بھٹی سے راکھ لے کر فرعون کے دربار میں پہنچے، اور وہاں ربّ کی حجت قائم کرتے ہوئے اُس راکھ کو بلند ہاتھوں سے آسمان کی طرف اچھال دیا۔

اسی لمحے، راکھ کی باریک ذرّات ہوا میں تحلیل ہو کر پورے مصر پر چھا گئیں۔ فضا میں غبار بن کر اڑتی ہوئی وہ راکھ جب زمین پر واپس آئی، تو وہ قہرِ الٰہی کا پیغام بن چکی تھی۔

مصریوں کے جسم پر یکایک زخم ابھرنے لگے، پھوڑے پھپھولے پھٹنے لگے، درد کی چیخیں فضا میں گونجنے لگیں۔ ان کے جانور بھی اس عذاب سے نہ بچ سکے۔ پورا ملک کراہنے لگا، ہسپتالوں کا نقشہ بنا، اور ہر چہرے پر خوف و اذیت کے سائے چھا گئے۔

فرعون نے اپنے جادوگروں کو بلایا کہ وہ اس آفت کا مقابلہ کریں، مگر اس بار وہ بھی بے بس نکلے۔ وہ بھی انہی زخموں میں مبتلا ہو گئے، یہاں تک کہ دربار میں کھڑے ہونے کی طاقت بھی ان کے جسموں سے رخصت ہو گئی۔

لیکن… وہی فرعون، جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا، اب بھی غرور کی مسند سے نہ اترا۔ اُس کا دل پہلے سے زیادہ سخت ہو چکا تھا۔ اُس نے کوئی عبرت نہ پکڑی، کوئی نرمی نہ دکھائی، اور اپنی سابقہ ضد پر ڈٹا رہا۔ بنی اسرائیل کی رہائی کی بات سن کر اس نے پھر انکار کیا گویا اس پر کوئی نشان کبھی ظاہر ہی نہ ہوا ہو۔


حضرت بیدلؒ

زخمِ دل را نہ مرہم، نہ فریاد بود
گر دلی سنگ شد، آنچہ بارد چو بود؟

تشریح:
“جب دل زخم کھانے کے بعد بھی نہ تڑپے، نہ فریاد کرے، تو جان لو کہ وہ دل پتھر ہو چکا ہے، اور اس پر اگر آسمان بھی برس جائے، تو کوئی اثر نہیں ہوتا۔”


نتائج:

  1. اللہ تعالیٰ کی نشانی، اگرچہ ظاہری ہو، مگر اس کا اصل مخاطب دل ہوتا ہے اور اگر دل سخت ہو جائے تو کوئی نشانی فائدہ نہیں دیتی۔
  2. قہرِ الٰہی کبھی بغیر تنبیہ کے نہیں آتا، بلکہ ہر نشانی ایک دعوتِ رجوع بھی ہوتی ہے۔
  3. جو لوگ اللہ کے نبیوں کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں، وہ خود اپنی ہی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
  4. جادوگر جنہیں لوگ نجات دہندہ سمجھتے ہیں، اللہ کے سامنے وہ بھی عاجز ہو جاتے ہیں۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں اس حقیقت سے آشنا کرتا ہے کہ جب حق بار بار دروازے پر دستک دے اور دل سننے سے انکار کرے، تو قہر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کا یہ معجزہ نہ صرف راکھ کا اٹھایا جانا تھا، بلکہ اُس ظالم سلطنت کی بنیادوں پر پھینکا گیا ایک روحانی اعلان تھا کہ “اب بھی وقت ہے، جھک جاؤ… ورنہ قہر نازل ہو چکا ہے۔”
لیکن وہی فرعون، جو اپنے زخموں کو دیکھ کر بھی نہیں پگھلا، ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ غرور انسان کو انجام سے اندھا کر دیتا ہے اور یہی ہلاکت کی علامت ہے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔