خلیل کی تسلیم، اور روح کی نجات کا راز

قربانی محض ایک عمل نہیں بلکہ بندگی کی وہ بلند چوٹی ہے
جہاں انسان اپنی سب سے محبوب متاع کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر قربان کر دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جہاں محبت، اطاعت، تسلیم اور فنا ایک نقطے پر آ کر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔
ابراہیمؑ کی قربانی صرف ایک بیٹے کی آزمائش نہ تھی،
بلکہ وہ آسمان سے آنے والی اُس عظیم قربانی کی علامت تھی
جو تمام بنی نوع انسان کے لیے راہِ نجات بنی
یعنی سیدنا عیسیٰؑ، جنہوں نے اپنی جان ربّ قدوس کی عدالت اور انسان کی نجات کے درمیان قربان کر دی،
تاکہ خاکی انسان دوبارہ ربِّ ذوالجلال کے چہرے کی طرف لوٹ سکے۔

جب ابراہیمؑ نے اپنے نورِ نظر بیٹے کو قربان گاہ پر لٹا دیا
اور خنجر اپنے ہاتھ میں لے کر اطاعت کی بلند ترین چوٹی پر قدم رکھا
تو زمین خاموش ہو گئی، آسمان کی سانس رک گئی،
اور عرشِ معلیٰ پر تسلیم و رضا کی تاریخ رقم ہونے لگی۔
اسی لمحے ایک نورانی صدا فضا میں گونجی:
“ابراہیمؑ، ابراہیمؑ”
ابراہیمؑ نے عرض کیا: “حاضر ہوں، اے میرے ربِّ رحیم!”
فرشتے نے فرمایا:
“اپنا ہاتھ روک لو، اور بیٹے کو کوئی ضرر نہ پہنچاؤ۔
تمہاری بندگی کی آزمائش مکمل ہوئی۔
تم اُن میں سے ہو جن کے دل سراپا تسلیم اور روح وفا کی مجسم تصویر ہے۔
تم نے اپنی عزیز ترین شے کو ربِّ کریم کی رضا پر نچھاور کرنے کا قصد کیا۔”

اسی لمحے ابراہیمؑ کی نگاہ ایک جھاڑی کی طرف گئی،
جہاں ایک دنبہ اپنے سینگوں سے پھنسا ہوا کھڑا تھا۔
آپؑ نے آگے بڑھ کر اُس دنبے کو وہاں سے نکالا،
اور اپنے بیٹے کی جگہ اُسے قربان کر دیا۔

اس مقام کو “جبلُ المدیر” کہا گیا،
یعنی وہ پہاڑ جہاں ربِّ ذوالقوت خود تدبیر فرماتا ہے۔

اسی جگہ پھر آسمانی نداء بلند ہوئی:
“ابراہیمؑ! مجھے قسم ہے اپنی ذاتِ اقدس کی —
میں تیری نسل کو آسمان کے ستاروں اور ساحل کی ریت کی مانند بڑھا دوں گا،
اور روئے زمین کی تمام قومیں تیری نسل کے سبب سے برکت پائیں گی،
کیونکہ تُو نے میری نداء پر لبیک کہا۔”


خلیل اللہ کی یہ عظیم قربانی صرف ایک عمل نہ تھی
بلکہ ایک الٰہی اشارہ تھی
جو اُس کامل قربانی کی طرف لے جاتی ہے
جس نے انسان کو گناہ کی زنجیروں سے آزاد کر کے،
دوبارہ ربِّ رحیم کی حضوری میں کھڑا کر دیا۔

جب انسان نے گناہ کیا اور خالق سے الگ ہو گیا،
تو عدلِ الٰہی نے سزا طلب کی،
اور محبتِ الٰہی نے نجات کا دروازہ کھولا۔

تب مالکِ یوم الدین نے فرمایا:
“میں اپنے کلام کو مجسم کروں گا اور اُن کے درمیان بھیجوں گا،
تاکہ وہ اُن کے گناہوں کا کفارہ بنے۔”

اور وہ کلام، جو مجسم نور تھا،
سیدنا عیسیٰؑ کی صورت میں زمین پر ظاہر ہوا۔

وہ معصوم تھے، پاک اور بےگناہ،
اور انہوں نے اپنی جان قربان کر کے وہ فدیہ ادا کیا
جو انسانی نسل کی نجات کے لیے لازم تھا۔

انہوں نے نہ صرف جسمانی قربانی دی،
بلکہ روحانی اور ابدی نجات کا دروازہ بھی کھول دیا۔

ان کی قربانی نے نہ صرف ربِّ العادل کی عدالت کو مطمئن کیا
بلکہ اُس کی رحمت کو بھی بندوں کے دلوں تک پہنچا دیا۔

یہ وہی کامل فدیہ ہے جس کا ذکر صدیوں قبل
ابراہیمؑ کی آزمائش میں اشارہ کے طور پر کر دیا گیا تھا،
اور جس کی تکمیل مولا عیسیٰؑ کی صلیب پر ہوئی۔


حضرت بیدلؒ

کَسے کویِ یار را پا نہاد
بہ قربان شود، سر بہ سجده نہاد


تشریح

جو کوئی ربِّ قدوس کے در پر سچائی کے ساتھ آتا ہے،
اُسے اپنے وجود، اپنی چاہت، اور اپنی انا کو قربان کرنا پڑتا ہے۔
ابراہیمؑ نے بیٹے کو لٹا کر اطاعت کی معراج پیش کی،
اور عیسیٰؑ نے خود کو صلیب پر دے کر نجات کی راہ ہموار کی۔
یہ دونوں عظیم ہستیاں عشق اور فنا کی علامت ہیں،
اور ان کی قربانیوں میں وہ راز پوشیدہ ہے
جس سے انسان کو ربِّ رحیم کی طرف واپسی کا در کھلتا ہے۔


نتائج

ابراہیمؑ کی قربانی ہمیں سکھاتی ہے
کہ اطاعت کامل ہو تو دل کا رشتہ آسمان سے جڑ جاتا ہے۔
جبلُ المدیر ہمیں یاد دلاتا ہے
کہ ربِّ کریم ہر امتحان کے مقام پر اپنی تدبیر سے ظہور فرماتا ہے۔
عیسیٰؑ کی قربانی وہ کامل نجات ہے
جس نے گناہ کی غلامی کو ختم کیا۔
نجات کا راستہ محبت، اطاعت اور بے عیب قربانی سے کھلتا ہے —
اور وہ قربانی عیسیٰؑ کی صلیبی محبت میں پوری ہوئی۔
گناہ سے آزادی، اور ربِّ رحمت کی حضوری میں بحالی،
صرف اُس فدیے سے ممکن ہے جو مکمل ہو، معصوم ہو، ازلی ہو۔


اختتامیہ

ابراہیمؑ کی چھری نے زمین پر اطاعت کا چراغ روشن کیا،
اور عیسیٰؑ کی صلیب نے آسمان سے نجات کی روشنی اتاری۔
خلیل اللہ نے دنبہ پیش کیا —
اور روحوں کے نجات دہندہ نے خود کو۔

اگر ہم اُس قربانی کو دل سے قبول کریں،
تو نہ صرف گناہوں سے آزادی ملتی ہے،
بلکہ ہم ربِّ نور کی حضوری میں واپس آ جاتے ہیں،
جہاں محبت ازلی ہے، اور وصال ابدی۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔