حضرت آدمؑ کے لیے رفیق کی تلاش

جب ربِّ جلیل نے حضرت آدمؑ کو تخلیق فرمایا اور انہیں جنتِ عدن میں سکون و عظمت سے بسایا، تو اُن کے وجود میں ایک خاص احساس کو بیدار فرمایا — وہ احساسِ خلوت، جس میں دل کو قربت چاہیے، اور روح کو انسیت۔

ربُّ السّماواتِ والارض کی حکمت میں یہ بات پوشیدہ تھی کہ حضرت آدمؑ کی طبیعت اکیلی نہ رہے۔ وہ خالق، جو دلوں کے حال جانتا ہے، اُس نے ارادہ فرمایا کہ اپنے برگزیدہ بندے کے لیے ایک رفیق، ایک انسیت بخش وجود عطا کرے۔

لیکن اِس سے پہلے، ربّ کریم نے حضرت آدمؑ کو علمِ اسماء کے سمندر میں غوطہ زن کیا —
جو کچھ بھی زمین پر چلنے والے جاندار تھے، جو فضاؤں میں پرواز کرنے والے پرندے تھے، اور جو جنگلوں میں پھرتے تھے، اُن سب کو ربّ عظیم نے حضرت آدمؑ کے سامنے پیش کیا۔

یہ صرف مشاہدہ نہ تھا، بلکہ ایک روحانی مظاہرہ تھا — جہاں بندے کے اندر رکھے گئے علم کا اظہار ہونا تھا۔

اور حضرت آدمؑ ہر مخلوق کو نام دیتے گئے — پرندے، درندے، جانور، چوپائے، رینگنے والے — سب کو اپنی پہچان حضرت آدمؑ کے ہونٹوں سے ملی۔

ہر مخلوق جب اپنے نام کے ساتھ حضرت آدمؑ کے سامنے آتی تو فرشتے سراپا حیرت بن جاتے — کہ یہ کیسا نور ہے جسے ربّ نے علم و فہم کا خزینہ عطا فرمایا ہے۔

لیکن جب تمام مخلوقات اپنے نام پا گئیں، تو حضرت آدمؑ نے دل میں ایک خاموش خلاء محسوس کیا — ایک روحانی تنہائی، ایک انسیت کی طلب۔ اُن کے قلب نے جانا کہ:

“یہ سب میرے اردگرد ہیں، لیکن میرے جیسا کوئی نہیں۔”


خواجہ حافظ شیرازیؒ

“به هر چه نگری، نام ازو یافت باز،
ولے یار دل را نیافت آن نیاز.”

تشریح:
حضرت آدمؑ نے ہر شے کو نام دیا، ہر چیز کو پہچان بخشی،
لیکن اپنے دل کی خلوت کو پُر کرنے والا یار نہ پایا۔

حافظؒ اس شعر میں ایک لطیف اشارہ دیتے ہیں کہ علم، شعور اور فہم اپنی جگہ،
لیکن دل کا سکون صرف اُسی انس سے ہے جو ربّ کریم کے ارادے سے عطا ہوتا ہے۔


نتائج:

  1. حضرت آدمؑ کا علم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا پہلا نورانی تحفہ تھا۔
  2. ہر مخلوق کی پہچان انسان کے ذریعے ربّ نے متعین فرمائی — یہ خلافت کی پہلی جھلک تھی۔
  3. تنہائی کے احساس کو ربّ نے نظر انداز نہ کیا — بلکہ اس کی بنیاد پر انسیت کا آغاز فرمایا۔
  4. ہر شے کو نام دینا انسان کی علمی عظمت کا اعلان ہے، مگر اُس کا دل صرف روحانی رفاقت سے مطمئن ہوتا ہے۔
  5. اللہ تعالیٰ انسان کی ظاہری و باطنی ضروریات دونوں کو جانتا ہے اور اُن کے لیے مناسب وقت پر بہترین فیصلے فرماتا ہے۔

اختتام:

یہ قصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ علم، اختیار، اور پہچان انسان کے اعلیٰ مرتبے کی علامت ہیں،
لیکن روح کی تسکین، دل کی رفاقت، اور باطنی اطمینان صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب ربّ ذوالجلال خود کسی کے لیے انس مقرر فرما دے۔

یہی سبق ہمیں بندگی میں عاجزی، اور علم میں انکساری سکھاتا ہے — کہ سب کچھ جاننے کے باوجود، بندہ اپنے خالق کی رضا کا محتاج رہتا ہے۔


سوالات کے جوابات دیں۔