سبق نمبر 3- ارادہِ باری تعالیٰ

 اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارادہ کیا کہ حضرت آدمؑ لئے ایک ساتھی بنائے کیونکہ  اللہ تبارک وتعالیٰ نے سوچا کہ یہ مناسب نہیں کہ حضرت آدمؑ اکیلا رہے۔ چنانچہ  اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے جو زمین پر چلنے پھرنے والے جانور اور ہَوا کے پرندے بنے تھے۔ وہ سب جاندار اللہ تبارک وتعالیٰ آدمؑ کے پاس لایا تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضرت آدمؑ اُن جانداروں کے کیا نام رکھتے ہیں تاکہ جو بھی نام حضرت آدمؑ اُن جانداروں کے دیں وہی اُن کا نام ٹھہریں۔ یوں ہر جاندار کو حضرت آدمؑ کی طرف سے نام مل گیا۔ حضرت آدمؑ نے تمام چرندوں، پرندوں اور درندوں کے نام رکھے لیکن حضرت آدمؑ کو اپنے لئے کوئی مناسب مددگار نہ ملا۔

سبق کا خلاصہ

اختیاری افعال میں معرفت ایک چراغ کے مانند ہے جو امور اختیاری میں واضح اور روشن کردینے والا کردار ادا کرتی ہے ، چونکہ ہمارے لئے طریقۂ انجام اور افعال کو پہچاننا اور ان کی اچھائی اور برائی کو جدا کرنا ضروری ہے تاکہ ہم سب سے بہتر کو انتخاب کرسکیں اور ہمارا یہ اختیاری فعل حکیمانہ اور عقل پسندی پر مبنی ہو.لیکن افعال کے اچھے اور برے کی معرفت ، حقیقی کمال کے سلسلہ میں صحیح معلومات اور اس کی راہ حصول پر مبنی ہے. جب تک ہم اپنے حقیقی اور نہائی کمال اور اس کے راہ حصول کو نہیں سمجھ سکیں گے اس وقت تک افعال کی اچھائی اور برائی کو صحیح طرح مشخص نہیں کرسکتے اور نہ ہی معقول ودرست انتخاب کرسکتے ہیں۔دنیا اور آخرت کی شناخت ہے اس لئے کہ جو نہیں جانتا کہ اس کا اور موجودات کا وجود مستقل اور کافی ہے یا خالق دو عالم سے وابستہ ہے وہ حقیقی اور نہائی کمال اور اپنے وجود کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتا ہے اور دوسری طرف جو اللہ تبارک وتعالیٰ پر عقیدہ نہیں رکھتا وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت حاصل کرسکتا ہے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔