تیسرے دن کی تخلیق

رب العالمین، جو حکمت اور قدرت کا منبع ہے، اُس نے تیسرے دن اپنی بے نظیر حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: “جو پانی آسمان کے نیچے ہے، وہ ایک جگہ جمع ہو جائے تاکہ خشکی ظاہر ہو۔” خالقِ ارض و سما کے حکم سے پانی ایک طرف سمٹ گیا، اور زمین کی خشک سطح نمایاں ہونے لگی۔ ربّ ذو الجلال نے اس خشک علاقے کو “زمین” کا نام دیا اور پانی کے مجتمع حصے کو “سمندر” قرار دیا۔

یہ منظر، جہاں پانی کی موجیں اپنی حد میں قید ہو گئیں اور زمین نے اپنا چہرہ دکھایا، خالق کی عظیم قدرت کی جھلک پیش کرتا ہے۔ اس سب کو دیکھ کر رب العالمین کو یہ ترتیب پسند آئی۔ اس کے بعد رب العالمین نے زمین کو سبزے سے بھرنے کا حکم دیا۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: “زمین میں ہر قسم کی بیج دار نباتات پیدا ہوں، جو اپنی نسل کو بڑھائیں اور پھل دار درخت پیدا کریں۔”

ربّ العالمین کے حکم کے مطابق، زمین نے سبز پوشاک اوڑھ لی۔ ہر طرف بیج دار پودے، پھل دار درخت اور ہریالی ظاہر ہوئی۔ خوشبو اور تازگی کے جھونکوں نے زمین کی زرخیزی کا اعلان کیا۔ یہ سبزہ اور ہریالی خالقِ کائنات کو بے حد پسند آئی، کیونکہ یہ اس کی حکمت اور نعمتوں کا مظہر تھا۔ یوں، تیسرے دن کی تخلیق مکمل ہوئی، اور ایک نیا باب شروع ہوا۔


مولانا رومیؒ اس قصے کی روشنی میں فرماتے ہیں:
“امر او گفت: سبز شود این زمین
درختان بار آورد، هر لحظه همین”
تشریح:
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کے حکم سے زمین سبز ہو گئی، درختوں نے پھل لانے شروع کیے، اور یہ عمل رب العالمین کی قدرت اور حکمت کا واضح مظہر بن گیا۔ ان اشعار میں تخلیق کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے اور رب ذوالجلال کی نعمتوں پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔


نتائج:

  1. زمین اور سمندر کی حد بندی: تیسرے دن کی تخلیق نے زمین اور سمندر کو الگ کر کے زندگی کے لیے ایک بنیاد فراہم کی۔
  2. سبزے اور ہریالی کی ابتدا: بیج دار نباتات اور پھل دار درختوں کی تخلیق نے زمین کو خوشنما بنایا اور رزق کے نظام کو جاری کیا۔
  3. خالق کی حکمت کا اظہار: یہ سبزہ، یہ درخت، یہ ہریالی خالقِ کائنات کی حکمت اور فیاضی کا مظہر ہیں، جو انسان کو شکر گزاری اور غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔

اختتام:
تیسرے دن کی تخلیق ہمیں خالق کی عظمت، اس کی حکمت اور نعمتوں کی قدر کرنے کا درس دیتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر چیز، خواہ وہ زمین ہو، سمندر ہو، یا سبزہ، سب کچھ رب العزت کے حکم سے ممکن ہوا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان نعمتوں پر غور کریں، ان کا شکر ادا کریں، اور اپنی زندگی میں توازن اور احسان پیدا کریں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔