بھائیوں کی واپسی: آزمائشِ صداقت

جب خواب حقیقت کا روپ دھارنے لگے، تو وقت خود اُنہیں سجدہ کرنے آتا ہے۔ جنہیں ماضی نے تنہا چھوڑا ہو، وہی حال کے تخت پر بٹھائے جاتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ کا خواب اب تعبیر کی دہلیز پر ہے، لیکن وہ خواب صرف ظاہری سجدوں کا نہیں، بلکہ صبر، معافی اور آزمائش کے چراغ سے روشن ہونے والا ایک روحانی منظر ہے۔

دوسری طرف حضرت یوسفؑ کا سکہ تمام مصر پر چل رہا تھا، اور اناج کی تقسیم کے تمام تر اختیارات اُن ہی کے ہاتھ میں تھے۔ جب قحط کی شدت نے اہلِ کنعان کو مجبور کیا، تو حضرت یوسفؑ کے بھائیؓ بھی اناج خریدنے کے لیے مصر پہنچے۔

وہ حضرت یوسفؑ کے سامنے جھک گئے، سجدہِ تعظیمی بجا لائے اور وہی لمحہ، جو برسوں پہلے ایک خواب کی صورت میں حضرت یوسفؑ نے دیکھا تھا، اب چشمِ حقیقت میں اُتر آیا۔

حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوںؓ کو دیکھتے ہی پہچان لیا، مگر آپؑ انجان بنے رہے۔ آپؑ نے سخت لہجے میں فرمایا: “کہاں سے آئے ہو تم لوگ؟”

انہوںؓ نے عرض کی: “حضور! ہم کنعان سے اناج خریدنے کے لیے آئے ہیں۔”

حضرت یوسفؑ کی آواز سننے کے باوجود وہ آپؑ کو نہ پہچان سکے۔ جھکے ہوئے سروں، اور تھکے قدموں کو دیکھ کر حضرت یوسفؑ کے دل میں ماضی کے وہ سب مناظر تازہ ہو گئے بھائیوں کی جدائی، کنویں کی تاریکی، غلامی کا بازار، قید کا در، اور اب سلطنت کی کرسی۔

مگر زبان پر سختی برقرار تھی۔ آپؑ نے فرمایا: “مجھے تو تم جاسوس لگتے ہو! ضرور تم ہمارے ملک کے راز چرانے آئے ہو!”

انہوںؓ نے کہا: “ہمیں غلط مت سمجھیں، ہم شریف اور ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف اناج خریدنا ہے۔”

حضرت یوسفؑ نے فرمایا: “نہیں، تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم صرف جاسوس ہو!”

تب وہ بولے: “ہم بارہ بھائی تھے، ایک بھائی اب ہمارے ساتھ نہیں رہا، اور سب سے چھوٹا بھائی کنعان میں والد صاحب کے ساتھ ہے۔”

حضرت یوسفؑ نے فرمایا: “اگر تم سچے ہو، تو اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو لے آؤ۔ ورنہ قسم ہے فرعون کی، تم زندہ واپس نہ جا سکو گے۔”

پھر آپؑ نے حکم دیا کہ ان سب کو قید خانے میں ڈال دیا جائے۔

تین دن کے بعد، حضرت یوسفؑ نے ان سب کو دوبارہ طلب کیا۔ آپؑ نے فرمایا:

“میرے دل میں خوفِ الٰہی ہے، اس لیے میں تمہارے ساتھ نرمی کر رہا ہوں۔ تم میں سے ایک یہاں قید رہے اور باقی سب اپنے اہل و عیال کے لیے اناج لے جاؤ۔ اگر تم سچے ہو، تو اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے آؤ۔ جب وہ یہاں آ جائے گا، تو تم سب آزاد کر دیے جاؤ گے۔”


مولانا رومی

“چوں دل شکستی و نالہ زدی، زود رسد کاروانِ کرم”

تشریح:
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ جب دل ٹوٹ جائے اور آہ بلند ہو، تو رب کی عنایت اور کرم کی قافلہ فوراً پہنچتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کی زبان پر سختی تھی، مگر دل کرم کی گھاٹی میں ٹھہرا ہوا تھا۔ دل شکستہ بھائیوں پر بھی کرم کا دروازہ بند نہ تھا، بلکہ اس میں آزمائش کے پردے کے پیچھے معافی کی روشنی چھپی تھی۔


نتائج:

  1. وقت اور مرتبہ ملنے کے بعد صبر، معافی اور ضبط ہی اصل بادشاہی ہے۔
  2. خواب جب حقیقت بنتے ہیں تو آزمائش کا دروازہ دوبارہ کھلتا ہے، مگر اب کردار حاکم کا ہوتا ہے۔
  3. جو معاف کر سکتا ہے، وہی حقیقی وارثِ عزت ہوتا ہے۔
  4. دشمنی کو آزمائش کے روپ میں لینے والا ہی صلح کا وارث بنتا ہے۔
  5. صداقت کی پرکھ ہمیشہ خالی ہاتھوں سے نہیں، بلکہ سجدے اور عذر سے ہوتی ہے۔

اختتامیہ:
یہ وہ باب ہے جہاں ماضی کے زخم، اقتدار کی مسند پر بیٹھے ہوئے دل کے اندر بولتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے نہ انتقام لیا، نہ طعنہ دیا، بلکہ خوفِ الٰہی اور عدل کو اپنا لباس بنایا۔ یہی وہ صفت ہے جو نبی کو نبی بناتی ہے، اور خواب کو نور میں بدل دیتی ہے۔

یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ جب اختیار ہمارے ہاتھ میں آئے، تو ہم یاد رکھیں کہ ہماری سب سے بڑی فتح وہ ہے جو نفس پر ہو، نہ کہ دوسروں پر۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔