بھائیوں کی واپسی اور حضرت یعقوبؑ کی رضا

جب ظلم آنسو بن کر پلکوں پر ٹھہر جائے، اور وقت بےنیازی کا پردہ چاک کر دے، تو ماضی کی ہر خطا اپنے انجام کے ساتھ واپس لوٹتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کی خاموش صداقت اب آواز بن کر اُن کے بھائیوںؓ کے دل پر دستک دے رہی تھی۔ وہی بھائی، جو کل انکار تھے، آج اقرار میں ڈھلنے لگے۔ آزمائش کا دروازہ کھل چکا تھا، اور سچائی نے خود اپنا مقدمہ قائم کر لیا تھا۔

حضرت یوسفؑ کے بھائیؓ جب قید سے نکلے تو دل کے بوجھ اُن کے قدموں سے بھی بھاری ہو چکے تھے۔ وہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے عبرانی میں کہنے لگے: “یقیناً یہ عذاب اُس ظلم کا بدلہ ہے جو ہم نے یوسفؑ کے ساتھ کیا۔ وہ التجائیں کرتا رہا، اور ہم سنگ دل بنے رہے۔”

حضرت روبینؓ نے تاسف سے کہا: “میں نے تمہیں کہا تھا کہ یوسفؑ کو نقصان نہ پہنچاؤ، مگر تم نے میری ایک نہ سنی، اب بھگتو!”

حضرت یوسفؑ یہ ساری گفتگو سمجھ رہے تھے، مگر اُن کے بھائیؓ بے خبر تھے کہ وہ عبرانی زبان جانتے ہیں، کیونکہ بات چیت مترجم کے ذریعے ہو رہی تھی۔

حضرت یوسفؑ اس لمحے کو برداشت نہ کر سکے۔ وہ اکیلے میں چلے گئے اور زار زار روئے۔ دل کا سمندر آنکھوں سے بہہ نکلا۔ پھر خود کو سنبھال کر واپس آئے اور سب کے سامنے اپنے بھائی شمعونؓ کو رسیوں سے بندھوا دیا۔

اس کے بعد حضرت یوسفؑ نے چپکے سے نوکروں کو حکم دیا کہ ان کے بورے اناج سے بھر دو، سفر کے لیے زادِ راہ دو، اور ان کی رقم بھی اُنہی بوروں میں واپس رکھ دو۔ حکم تعمیل میں آیا، اور حضرت یوسفؑ کے بھائیؓ روانہ ہو گئے۔

راستے میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا۔ ایک بھائیؓ نے جیسے ہی اپنا بورا کھولا، حیران رہ گیا کہ اس کی رقم تو اوپر ہی رکھی ہوئی تھی! اُس نے فوراً اپنے بھائیوںؓ کو دکھایا۔ سب گھبرا گئے اور کہنے لگے: “خدایا! یہ کیا ماجرا ہے؟”

جب وہ واپس حضرت یعقوبؑ کے پاس پہنچے، تو سارا واقعہ کہہ سنایا: “اے والدِ محترم! مصر کے حاکم نے سختی سے بات کی، ہم پر جاسوسی کا الزام لگایا۔ ہم نے کہا کہ ہم بارہ بھائی ہیں، سب سے چھوٹا کنعان میں ہے، اور ایک اب ہم میں نہیں رہا۔ اُس نے کہا کہ چھوٹے بھائی کو لے کر آؤ، ورنہ تم پر الزام ثابت ہو جائے گا۔”

یہ سن کر حضرت یعقوبؑ غمزدہ ہو گئے، مگر آخرکار اللہ کی رضا پر راضی ہو کر فرمایا: “اگر یہی مشیتِ الٰہی ہے، تو کچھ قیمتی تحائف لے کر جاؤ: پستہ، بادام، شہد اور خوشبو۔ یہ سب اُس حاکم کو پیش کرنا، اور اپنے بھائی بنیامینؓ کو بھی ساتھ لے جاؤ۔”

حضرت یعقوبؑ نے ہاتھ اُٹھائے اور عرض کیا: “اے مُقَلِّبُ القُلُوب، اُس کے دل میں رحم ڈال، اور میرے دونوں بیٹے مجھے سلامتی کے ساتھ واپس عطا فرما!”

چنانچہ سب بھائیؓ دوبارہ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت یوسفؑ کے حضور حاضر ہو کر سجدۂ تعظیمی بجا لائے، تحائف پیش کیے، اور عرض کرنے لگے: “حضور، ہمارے والد ماشاء اللہ سلامت ہیں۔”


مولانا جلال الدین رومیؒ

از دل ندا رسید کہ وقتِ وصال نیست
بی اشک و آه، درِ درگاہ باز نیست

تشریح:
رومیؒ فرماتے ہیں کہ وصال کی گھڑی خاموشی سے نہیں آتی، بلکہ وہ دل کے درد، اشکوں اور سچے ندامت کے در سے داخل ہوتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوںؓ کے دل بھی اب اشکوں سے لبریز ہو چکے تھے، اور یہی آنسو اُن کی بخشش کا آغاز تھے۔


نتائج

  1. سچائی کبھی دبتی نہیں، وقت آنے پر خود گواہی دیتی ہے۔
  2. ظلم کا بوجھ پلٹ کر آتا ہے، مگر توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
  3. خوفِ الٰہی دلوں کو نرمی اور کردار کو وقار عطا کرتا ہے۔
  4. معافی وہی دیتا ہے جس کے دل میں نور اور آنکھوں میں اشک ہوں۔
  5. والدین کی دعائیں، آزمائش کی راتوں میں روشنی کا مینار بن جاتی ہیں۔

اختتامیہ
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ جب انسان دل سے توبہ کرتا ہے، اور صداقت کے سائے میں آتا ہے، تو تقدیر کے دروازے بدل جاتے ہیں۔ جو ہاتھ کبھی ظلم کے لیے اُٹھے تھے، وہ آج دعا کے لیے جُڑے نظر آتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے جو صبر کے ساتھ برداشت کیا، آج وہی صبر اُن کے بھائیوںؓ کی شرمندگی اور نجات کا ذریعہ بن رہا ہے۔ یہی وہ نرمی ہے جو رب کے محبوبین کے دلوں میں اتاری جاتی ہے کہ وہ زخم سہہ کر بھی مرہم بانٹتے ہیں۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔