نوحؑ پر ربّ کی رحمت اور طوفان کا زوال

جب ربِ قہار کا قہر اپنی حد کو پہنچ چکا، اور زمین پر ظلم کا پانی چھتوں سے بھی آگے بڑھ گیا، تب ربِ رحیم نے اپنے بندۂ وفادار، حضرت نوحؑ اور اُن کے ساتھ کشتی میں سوار اہل ایمان و ذی نفس پر رحم فرمایا۔ عرش کی عدالت سے قہر کے دروازے بند کر دیے گئے اور رحمت کے در کھلنے لگے۔

زمین کے اندر چھپے پانی کے خزانے جن سے طوفان کی گہرائی اٹھتی تھی، اب فرمانِ الٰہی سے بند کر دیے گئے۔ آسمان جو چالیس دن اور چالیس رات برس چکا تھا، اب خاموش ہو گیا۔ تب چلائی گئی ایک ہوا، جو قہر کے بعد رحمت کا پہلا پیغام تھی۔ وہ ہوا آہستہ آہستہ زمین کو سکھانے لگی اور پانی پیچھے ہٹنے لگا۔

ایک سو پچاسویں دن، جب زمین نے سکھ کا پہلا سانس لیا، تب ربّ تعالیٰ نے کشتی کو ایک نجات یافتہ منزل عطا کی۔ ساتویں مہینے کی سترہویں تاریخ کو کشتی پہاڑوں کی عظمت پر جا کر ٹکی، اور وہ پہاڑ تھے آراراط کے – جنہیں خالق نے نجات کے تاج سے سرفراز کیا۔
پھر وقت گزرتا رہا، اور پانی گھٹتا گیا، یہاں تک کہ دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں زمین کی خاموشی میں ظہور پذیر ہونے لگیں۔

یہ منظر صرف ایک طوفان کے اختتام کا اعلان نہ تھا، بلکہ ایک نئی زندگی، نئی زمین، اور نئی اطاعت کی ابتدا کا اعلان تھا۔ ربّ کی نظرِ رحمت جب کسی پر پڑتی ہے تو پانیوں میں تیرتی کشتی بھی منزل پاتی ہے۔


: عبدالرحمن جامی

“چو دریا برآشفت بر حکمِ دوست،
نجات است در کشتیِ آن نبیِ اوست”

تشریح:
جب خالق کا حکم سمندر کی موج بن کر اُٹھے، تب نجات صرف اُس کشتی میں ہے جو اُس کے نبی کی رہنمائی سے بنی ہو۔ یہی کشتی نوحؑ کی اطاعت کا نشان تھی، اور یہی ہر اہلِ وفا کی آخری پناہ۔


نتائج:

  1. طوفان کے بعد ربّ کی رحمت کا نزول اُس کی عدل و شفقت کی گواہی ہے۔
  2. حضرت نوحؑ کی استقامت، ربّ کی طرف سے عطا کردہ نجات کا ذریعہ بنی۔
  3. کشتی کا پہاڑ پر رکنا ایک نئی شروعات، ایک نئی زمین، اور نئی بندگی کا استعارہ ہے۔
  4. طوفان کا زوال اور پانی کا پیچھے ہٹنا، ہر آزمائش کے بعد آنے والی رحمت کی علامت ہے۔
  5. کشتی میں موجود ہر ذی نفس کی بقا، ربّ کی حکمت و محبت کی نشانی ہے۔

اختتام:

سبق ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جب انسان بندگی میں کامل ہو جائے، تو ربّ کے قہر میں بھی اُس کے لیے نجات کے پہلو رکھے جاتے ہیں۔ حضرت نوحؑ کی کشتی نہ صرف طوفان سے محفوظ رہی، بلکہ نئی زندگی کے آغاز کا پہلا زینہ بن گئی۔ آراراط کے پہاڑوں پر ٹھہرنا، انسان اور فطرت کے درمیان ایک نئے عہد کا پہلا نشان تھا۔ یہ سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر اطاعت کے ساتھ کشتی تیار کی جائے تو طوفان کوئی خطرہ نہیں، بلکہ وہی راستہ ہے جو انسان کو پہاڑ کی چوٹی تک لے جاتا ہے۔

درج ذیل سوالات کے جواب دیں۔