فساد کی انتہا اور فیصلہِ عدل
جب ربُّ السّماوات و الأرض نے زمین پر نظر فرمائی تو اُس کی آنکھ رحمت سے نہیں، بل کہ غیظ سے نم ہوئی۔ جو زمین کبھی محبت و بندگی کی جائے پناہ تھی، وہ اب ظلم، فتنہ اور نافرمانی کا میدان بن چکی تھی۔ ہر سمت انسان اپنی فطرتِ صالحہ کو چھوڑ کر شیطان کے نقشِ قدم پر چل رہا تھا۔ باطن کی روشنی بجھ گئی، اور دل گناہوں کے اندھیروں میں گم ہو چکے تھے۔
ربِ کریم نے جو بنی نوع انسان کو اپنی مشیت سے تخلیق فرمایا تھا، وہی مخلوق اب اپنے خیالات، ارادوں اور اعمال میں مسلسل بدی کی طرف مائل ہو چکی تھی۔ خالقِ مطلق کے دل میں ایک غم کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے فرمایا:
“زمین پر جو کچھ میں نے پیدا کیا، اُس میں انسان کو عزت دی، مقام عطا کیا، عقل دی، مگر وہی انسان بار بار بدی کی راہوں پر لوٹتا ہے۔ میں اپنے اس فیصلے پر رنجیدہ ہوں کہ میں نے اُسے پیدا کیا۔”
یہ غصہ، صرف عدل کا اعلان نہ تھا، بلکہ ایک صوفیانہ نوحہ بھی تھا—ایسا نوحہ جو اس لمحے کائنات کے سکوت میں لرزش بن کر گونجا۔
ربِ قہار و جبار نے فرمایا:
“اب مَیں صرف انسان ہی کو نہیں، بلکہ اُس کے ساتھ زمین پر چلنے پھرنے والے ہر جاندار کو، فضاؤں کے پرندوں کو، رینگنے والے جانداروں کو بھی مٹا دوں گا، کیونکہ یہ سب میرے مقرر کردہ مقصد سے ہٹ چکے ہیں۔”
یہ وہ فیصلہ تھا جس نے زمین و آسمان کو دہلا دیا۔ یہ محض ہلاکت کا اعلان نہ تھا، بل کہ ایک نئے آغاز کی تمہید تھی۔ عدل کے ساتھ ساتھ، رحمت کی روشنی بھی باقی تھی۔
بابا فریدؒ کہتے ہیں:
“ربّ دا کیہنا ساچ ہے، جھوٹے سب وسکار،
دنیا دے رنگ محل وچ، رہندا نئیں قرار”
تشریح:
خالق کا فرمان اٹل ہے، باقی سب کچھ دھوکے کا سراب ہے۔ انسان جس دنیا کے رنگوں میں مگن ہے، وہ فنا ہونے والی ہے۔ صرف وہی بچتا ہے جو رب کے ساتھ جُڑتا ہے۔
نتائج:
- انسان کی مسلسل نافرمانی رب کے غضب کو دعوت دیتی ہے، اور اُس کا عدل ہمیشہ ظہور پاتا ہے۔
- فطرتِ انسانی اگر راہِ حق سے ہٹ جائے، تو اُس کے وجود کا مقصد بھی ختم ہو جاتا ہے۔
- رب تعالیٰ کی نظر محض ظاہری افعال پر نہیں، بلکہ انسان کے خیالات اور نیتوں پر بھی ہوتی ہے۔
- عدلِ الہی کبھی اندھا نہیں ہوتا؛ وہ مکمل، شفاف اور عین حق ہوتا ہے۔
- یہ فیصلہ اُس الٰہی ترتیب کا آغاز تھا جس کے ذریعے ایک نئی نسل اور نئی راہ ہدایت متعین ہونی تھی۔
اختتام:
یہ سبق ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ جب انسان مسلسل بدی کی طرف جھکتا ہے، اور اپنے دل میں اصلاح کی کوئی روش باقی نہیں رکھتا، تو ربِ عظیم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، اور پھر عدل کا ہتھوڑا تمام فریب کو توڑ ڈالتا ہے۔ لیکن اس فیصلے کے پیچھے ایک الٰہی حکمت بھی ہے—کہ پرانی بدی کو ختم کر کے، ایک نئی ہدایت، ایک نئی راہِ حق، اور ایک نیا پیمان قائم کیا جائے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں