عدلِ یوسفؑ: فاقہ زدہ زمین پر رحمتِ الٰہی کی تدبیر
جب زمین پیاس سے تپتی ہو، آسمان خاموش ہو جائے، اور دانے خاک سے روٹھ جائیں، تب معاشرہ فاقہ میں ڈوبتا نہیں بلکہ کسی صاحبِ حکمت کی نگہبانی کا طلبگار ہوتا ہے۔ یہی حال مصر اور کنعان کا تھا جب قحط نے اپنی چادر ہر گوشۂ زمین پر تان لی، اور خلقِ خدا اپنے وجود کی بھوک سمیت حضرت یوسفؑ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔
حضرت یوسفؑ، جنہیں ربِ بصیر نے حکمت، تدبیر اور حلم کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا، نہ صرف گوداموں کے نگہبان تھے، بلکہ دلوں کے معالج بھی۔ شروع میں لوگ اناج کے بدلے درہم و دینار لاتے، اور وہ سب کچھ شاہی خزانے میں جمع ہوتا رہا۔
پھر وہ دن آیا کہ زر ختم ہوا، لیکن بھوک باقی رہی۔ لوگ بےبسی کی حالت میں حضرت یوسفؑ کے حضور فریاد کرنے لگے:
“اے مہربان ناظم! ہم خالی ہاتھ ہیں، نہ پاس کوئی زر ہے، نہ کوئی وسیلہ۔ کیا آپ ہمیں خالی پیٹ موت کے حوالے کر دیں گے؟”
حضرت یوسفؑ نے بصیرت و رحم کے ساتھ فرمایا:
“اپنا مال و مویشی لے آؤ، تمہیں ان کے بدلے رزق عطا کیا جائے گا۔”
چنانچہ ایک سال تک لوگ اپنے جانور—بھیڑ، بکریاں، گائے، بیل، گھوڑے، گدھے—لے کر آتے رہے، اور حضرت یوسفؑ اُنہیں خوراک عطا فرماتے رہے۔ لیکن پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب مخلوق کے ہاتھ خالی ہو چکے تھے، اور زبانیں فقط استغاثہ بن چکی تھیں۔ وہ دوبارہ عرض گزار ہوئے:
“یا سیدی! اب ہمارے پاس نہ جانور بچے، نہ سکہ، نہ اختیارفقط اپنی زمینیں اور جان بچی ہیں۔ ہمیں بیج عطا فرمائیے، تاکہ ہم اپنی زمینوں کو زندہ کریں اور آپ کی اطاعت میں زندہ رہیں۔”
حضرت یوسفؑ نے ریاستی قانون میں وہ حکمت شامل کی جو نہ صرف قحط کا علاج تھی بلکہ معاشی عدل کا سنگِ بنیاد بھی۔ آپؑ نے فرمایا:
“تم اور تمہاری زمینیں اب شاہی امان میں ہیں۔ بیج تمہیں عطا کیے جاتے ہیں۔ فصل اُگاؤ، اور جب کٹائی ہو تو پانچواں حصہ ریاست کے لیے، باقی چار حصے تمہارے لیے۔”
قوم نے نہایت عقیدت و شکر کے ساتھ عرض کیا:
“اے یوسفؑ! آپ نے ہمیں نئی زندگی عطا فرمائی ہے۔ آج سے ہم خود کو شاہی رعایا نہیں، بلکہ شکر گزار خادم سمجھتے ہیں۔”
یوں حضرت یوسفؑ کا یہ فیصلہ ایک عادلانہ معاشی نظام میں تبدیل ہو گیا، جو تاقیامت ایک مثال بن گیا۔ صرف پجاری، جو شاہی وظیفہ پر تھے، اس قانون سے مستثنیٰ قرار پائے۔
حضرت نظامیؒ
عدلِ سلطاں نیم شب افروز شد
تار شب را نورِ دین آموز شد
تشریح مختصر: نظامیؒ فرماتے ہیں کہ بادشاہ کا عدل اندھیری رات میں چراغ بن جاتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کا عدل بھی قحط کے اندھیرے میں نورِ نجات بن کر چمکا، جس نے جسم نہیں، دلوں کو آسودہ کیا۔
نتائج:
- عدل، جب نبی کے ہاتھ میں ہو، تو وہ فاقے کو رزق، اور زوال کو کمال بنا دیتا ہے۔
- رعایا، جب امانت ہو، تو حکمران کا ہر فیصلہ عبادت بن جاتا ہے۔
- مخلوق کی فریاد، جب اہلِ بصیرت کے در پر ہو، تو وہ سراپا رحمت میں ڈھل جاتی ہے۔
- معاشی نظام، جب انصاف پر مبنی ہو، تو وہ تاریخ میں مثال بن جاتا ہے۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ یوسفؑ کے عدل کی روشنی صرف قحط زدہ زمین کو ہی نہیں، دلوں کو بھی سیراب کرتی ہے۔ خدمت، اخلاص، اور منصفانہ قیادت اگر یکجا ہو جائے، تو فقر بھی نعمت بن جاتا ہے، اور زوال، ایک نئی زندگی کی بشارت۔ حضرت یوسفؑ نے نہ صرف قوم کی بھوک کو مٹایا، بلکہ اُنہیں جینے کا سلیقہ عطا کیا۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔