سبق نمبر 3- قحط کی شدت

دوسری طرف قحط اس قدر شدید ہوتا چلا گیا کہ کہیں بھی کھانے کو کچھ دستیاب نہ رہا نتیجتاً مصر اور کنعان کے لوگ خوراک کی کمی کی وجہ سے نحیف و نزار ہوگئے۔ حضرت یوسف مصریوں اور کنعانیون سے اناج کے بدلے رقم لے کر شاہی خزانے میں جمع کرتے رہے۔ جب اُن لوگوں کے پاس رقم ختم ہو گئی تو مصری لوگ حضرت یوسف کے پاس آکر دُہائی دینے لگے! حضور! اب تو ہمارے پاس ایک دھیلا بھی باقی نہیں بچا! ہمیں کچھ کھانے کو کیوں نہیں دے رہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی چوکھٹ پر مر جائیں۔
حضرت یوسف نے انہیں جواب دیا! اگر پیسے ختم ہوگئے ہیں تو اپنی مال مویشی لے آؤ۔ میں تمہیں ان کے بدلے اناج دوں گا۔ چناچہ اس پورے سال وہ لوگ اپنے ڈھور ڈنگر لے کر آتے رہے اور حضرت یوسف انہیں ان کے بھیڑ بکریوں، گائے بیلوں اور گھوڑوں گدھوں کے بدلے خوراک فراہم کرتے رہے۔ اگلے سال وہ لوگ دوباره حضرت یوسف کے پاس آکر کہنے لگے! حضور! ہم اپنا سب کچھ آپ کو دے کر خالی ہاتھ رہ گئے ہیں۔ ہمارے مال مویشی اور رقم سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ اب ہمارے پاس سوائے اپنے خستہ تن اور زمینوں کے کچھ بھی باقی نہیں بچا! اگر آپ نے کچھ نہ کیا تو ہم ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ حضور! آپ ہمیں خوراک مہیا کردیں تو ہم اپنی زمینوں کو فرعون ( اس وقت کا مصری بادشاہ) کی ملکیت میں دے دیں گے۔ ہوسکے تو ہمیں بیج ہی فراہم کردیں تاکہ بھوک سے مرنے کے بجائے اپنی زمینوں کو کاشت کریں اور ان سے کوئی فائدہ اٹھائیں۔
یوں قحط کی شدت کے سبب ہر ایک مصری اپنے کھیت سرکار کی ملکیت میں دینے پر مجبور ہوگیا سوائے پجاریوں کے کیونکہ مصری قانون کے مطابق انہیں فرعون ( اس وقت کا مصری بادشاہ) کی طرف سے باقاعدہ وظیفہ جاری کیا جاتا تھا۔ حضرت یوسف نے مصر کی تمام زمین فرعون (اس وقت کا مصری بادشاہ) کی ملکیت بنا دینے کے بعد اپنی شرائط مصری لوگوں کے سامنے رکھتے ہوئے کہا! میں تمہیں اور تمہاری زمین دونوں کو سرکاری ملکیت بنا چکا ہوں۔ اب یہ لو اپنے کھیتوں میں بونے کے لئے بیج۔ جاؤ اسے بوؤ اور فصل کی کٹائی کے وقت پانچواں حصہ فرعون کو دے کر باقی چار حصے اپنے استعمال اور اگلی فصل کی کاشت کے لئے رکھ لیا کرو۔
انہوں نے فرمایا! حضور! آپ نے بہت کرم فرمایا کہ ہماری زندگی بچا لیں! اب ہم خود کو فرعون (اس وقت کا مصری بادشاہ) کے مزارعے تسلیم کرتے ہیں۔
چنانچہ حضرت یوسف کے حکم سے یہ قانون پتھر پر لکیر ہوگیا کہ مصر میں پیدا ہونے والی ہر فصل کا پانچواں حصہ فرعون (مصری بادشاہ) کا ہوگا۔ یہ قانون تادمِ تحریر میں رائج ہے اور صرف پجاریوں کی زمینیں اس قانون سے مستثنیٰ ہیں۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔