ادبِ نبوت اور وصالِ نوحؑ

جب زمین پر طوفان تھم چکا، آسمان کی نگاہ سے عدل کا سیلاب گزر چکا، اور ایک نئی بشریت کے قدم زمین پر جم چکے، تب حضرت نوحؑ، جو طوفان کے سفیر اور اطاعت کی کشتی کے ناخدا تھے، زمین کی ویرانی کو آباد کرنے میں مصروف ہوئے۔ انہوں نے فطرت کے ساتھ اپنا تعلق از سرِ نو قائم کیا، اور کھیتی باڑی کا عمل شروع فرمایا۔

حضرت نوحؑ نے ایک دن انگور کا باغ لگایا، جو صرف مٹی کے بیج نہیں بلکہ تہذیب و طہارت کے نئے دور کا استعارہ تھا۔ جب ان انگوروں سے بنی نبیذ نوش کی گئی، تو عالمِ غفلت میں آپؑ خیمے میں سو گئے، اور بے ارادہ آپؑ کا ستر کھل گیا۔ آپؑ کے بیٹے حضرت حام نے یہ منظر بے حیائی سے دیکھا اور باہر آکر بھائیوں کو بتایا۔ لیکن حضرت سام اور حضرت یافت ادب و حیا کا پیکر بن کر، نگاہ جھکائے، ایک لحاف اپنے کندھوں پر ڈالے، پیٹھ کیے خیمے میں داخل ہوئے اور اپنے والد کی ستر پوشی کی۔

یہ عمل ادب و حیا کی وہ روشنی تھا جس نے تاریخِ نسلِ انسانی کو تقسیم کر دیا۔ حضرت نوحؑ جب بیدار ہوئے اور واقعے کی حقیقت جانی، تو دل میں رنج آیا، اور زبان سے نکلنے والے الفاظ نسلوں کی تقدیر لکھ گئے:

“کنعان پر لعنت ہو! وہ اپنے بھائیوں کے غلاموں کا بھی غلام ہو۔”

اور پھر حضرت نوحؑ نے سام اور یافت کے لیے دعا فرمائی:

“سام کے رب کی حمد ہو! کاش سام کی نسل کنعان پر حاوی رہے، اور اے میرے رب! یافت کو اس قدر بڑھا کہ وہ تمام زمین پر پھیل جائے۔”

یہ دعائیں فقط الفاظ نہ تھیں بلکہ رب کے نبی کی زبان سے جاری ہونے والا وہ تقدیری اذن تھا جس نے نسلوں کی سمتیں متعین کر دیں۔
یوں تین بیٹوں کی تین نسلیں مختلف راستوں پر چل پڑیں:

سامؑ کی نسل میں انبیاء، شریعتیں، اور حکمتیں آئیں۔

یافتؑ کی نسل دنیا کے مختلف اطراف میں پھیلی اور تہذیبوں کی بنیاد بنی۔

حامؑ کی نسل خدمت و محکومی کا استعارہ بنی، جیسا کہ حضرت نوحؑ کے الفاظ سے ظاہر ہوا۔

حضرت نوح علیہ السلام اس واقعے کے بعد مزید 350 برس زندہ رہے۔
یوں کل 950 سال کی بابرکت اور جدوجہد سے بھرپور زندگی گزار کر وصال فرمایا۔
آپؑ کی عمرِ مبارک ایک ایسی گواہی ہے کہ جو خالصتاً اپنے رب کے لیے جیتا ہے، وہ صدیوں کا پیغامبر بن کر اُمتوں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتا ہے۔

ناصر خسرو فرماتے ہیں

“چو فرزند، پیشِ پدر شرم داشت،
زِ حقّ، آں زمان برکت آرد و کاشت”

ترجمہ و تشریح:
“جو بیٹا اپنے والد کے سامنے شرم و ادب اختیار کرتا ہے، تو اُسی وقت اللہ کی طرف سے اُس پر برکت اور ترقی نازل ہوتی ہے۔”
یہ اشعار اس سبق کے قلب کو بیان کرتے ہیں — کہ شرم، حیا اور عزت کا شعور نسلوں کی ترقی کی بنیاد ہے۔

نتائج:

  1. نبی کی حرمت اور والد کی عزت انسان کی اخلاقی بنیاد ہے، جو نسلوں کو بلند یا پست کرتی ہے۔
  2. حضرت نوحؑ کی دعائیں اور بددعائیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ نبی کی زبان سے نکلی بات رد نہیں کی جاتی۔
  3. ادب و حیا وہ درخت ہیں جن کے سائے میں نسلیں پھلتی پھولتی ہیں۔
  4. بے ادبی صرف ایک عمل نہیں، ایک نسل کی محرومی کا آغاز ہو سکتی ہے۔
  5. حضرت نوحؑ کی عمر اور وصال ایک صابر، اطاعت گزار اور جہدِ مسلسل سے مزین حیات کی علامت ہے۔

اختتام:

یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کی طویل ترین راہیں بھی اگر اطاعت، حیا، اور ادب سے بھرپور ہوں تو وہ صرف تاریخ کا حصہ نہیں، بلکہ ہدایت کا مینارہ بن جاتی ہیں۔ حضرت نوحؑ کا وصال محض ایک نبی کا دنیا سے جانا نہ تھا، بلکہ وہ چراغِ وفا تھا جو نسلِ انسانی کو اطاعت، حیا، اور عدل کی راہوں پر گامزن کر گیا۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں