معجزۂ عصا اور انکارِ فرعون
جب بندگانِ خدا کی صدائیں عرشِ الٰہی کو چھونے لگیں، جب ظلم کے ایوان لرزنے لگیں اور فریادِ مظلوم ابدیت کے دریچوں پر دستک دے، تب حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ اب وقت آ چکا ہے باطل کے تاج کو جھکا دینے کا، ظلم کی زنجیروں کو توڑ دینے کا، اور اپنے وعدۂ ربانی کو پورا کر دکھانے کا۔
ربِّ کائنات نے حضرت موسیٰؑ کو فرمایا:
“اے میرے نبی، میرے بندے موسیٰؑ! ایک بار پھر فرعون کے دربار کا رُخ کر، اور اُسے کہہ دے کہ بنی اسرائیل کو میرے حضور جانے دے تاکہ وہ میری بندگی کریں۔ اگر وہ انکار کرے گا، تو سن لے، میں اپنی قدرت کی ایسی آفات نازل کروں گا کہ مصر کی فضائیں لرز اٹھیں گی اور بنی اسرائیل قافلوں کی صورت مصر سے نکلیں گے۔”
اور فرمایا:
“وہ تم سے معجزہ طلب کرے گا، تو تم اپنے عصا کو زمین پر ڈال دینا وہ میرے اذن سے جیتا جاگتا سانپ بن جائے گا۔”
چنانچہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ، جن کے چہرے نبوت کی روشنی سے تاباں تھے، جن کی زبان پر صادق الایمان کا ترنم تھا، فرعون کے دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت موسیٰؑ کی عمر اس وقت 80 برس تھی اور حضرت ہارونؑ کی عمر 83 برس۔ دربار غرور سے بھرا ہوا تھا، لیکن وہ لمحہ حق کا تھا۔
حضرت موسیٰؑ نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے عصا کو زمین پر ڈالا اور وہ عصا، جو صدیوں سے صرف ایک لکڑی تھا، یکایک آسمانی حکم سے زنده اژدہا بن گیا۔ نگاہیں حیرت سے پتھرا گئیں، زبانیں گُنگ ہو گئیں، اور دربار لرز اٹھا۔
مگر فرعون، جو خود کو رب العباد سمجھتا تھا، حق کے مقابل جھکا نہیں۔ اُس نے جادوگروں، اسفل علوم کے ماہرین، اور درباری ساحروں کو بلایا تاکہ معجزۂ نبوت کو فریبِ دنیا سے مٹا دے۔
جب جادوگر حاضر ہوئے، انہوں نے اپنی رسیاں اور لکڑیاں پھینکیں اور ظاہری نگاہ کو سانپ بننے کا دھوکہ دیا۔ لیکن اللہ کے نبی کا عصا، جو سچائی کا مظہر اور قدرت کا علمبردار تھا، سب سے بلند ثابت ہوا۔ وہ عصا-سانپ حرکت میں آیا اور اُن کے تمام سانپوں کو نگل گیا۔
ہر طرف سناٹا چھا گیا لیکن فرعون کا دل، جو ظلم و تکبر سے پتھر ہو چکا تھا، نرم نہ ہوا۔ اُس نے کہا:
“میں تمہارے کسی خدا کو نہیں مانتا، اور بنی اسرائیل کو جانے کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔”
یوں وہ دن، جو معجزے کی حقانیت کا دن تھا، کفر کے غرور کا دن بن گیا لیکن نبوت کی روشنی اور ربّ کی قدرت نے اعلان کر دیا کہ باطل کو اب زیادہ مہلت نہیں۔
حضرت سنائیؒ
دلِ فرعون، اگر سنگین تر گردد ز سنگ
نداند نورِ حق را، گرچہ در پیش است رنگ
تشریح:
سنائیؒ فرماتے ہیں: “اگر کسی کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جائے، تو وہ سامنے آتی روشنیِ حق کو بھی نہیں پہچانتا۔” فرعون کی یہی حالت تھی روشنی سامنے تھی، مگر دل اندھیروں میں گم تھا۔
نتائج:
- معجزہ اُس وقت ہدایت بنتا ہے، جب دل میں انکساری ہو۔
- عصا جب ربّ کا نشان بن جائے، تو وہ دنیا کے ہر فریب کو نگل لیتا ہے۔
- جادو ہمیشہ ایک پردہ ہوتا ہے، جبکہ نبوت ایک روشنی۔
- جن کے دل پر مہر لگ چکی ہو، وہ چاہے معجزہ بھی دیکھ لیں، ہدایت نہیں پاتے۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ ربّ جب کسی قوم کو نجات دینا چاہے، تو وہ اپنے نبی کے ہاتھ میں لکڑی کو سانپ بنا دیتا ہے، اور درباری جاہ و جلال خاک ہو جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کا یقین، حضرت ہارونؑ کی رفاقت، اور معجزہء عصا اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ربّ کا وعدہ اٹل ہے، اور اُس کا نور کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔