عہدِ وارثِ کی بشارت
جب وقت کا آسمان ایک خاموش دعا کے نور سے لرزنے لگا، اور عرش سے ایسی صدا نازل ہوئی جو صرف وہی سنتے ہیں جن کے دل سراپا یقین بن چکے ہوں، تب روحِ خلیل کے سامنے وعدۂ ازل کے دروازے کھول دیے گئے۔ رب کا پیغام نہ صرف الفاظ میں تھا بلکہ ہر لفظ میں نور، ہر نور میں قرب، اور ہر قرب میں ایک عظیم ذمہ داری چھپی تھی۔ ان لمحات میں حضرت ابرام کی آنکھیں انتظار سے روشن اور دل تسلیم سے لبریز ہو چکا تھا۔
جب حضرت ابرام نے اپنے رب کی باتیں سنیں تو ان کا دل خشوع و خضوع سے بھر گیا اور وہ عاجزی کے عالم میں سجدہ ریز ہو گئے۔ سجدے کی اس کیفیت میں اُن پر ربِ کریم کی وہ بشارت نازل ہوئی جو انسان کی تاریخ میں ہدایت کے در وا کرتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا: “اب! میں تم سے ابدی وعدہ کرتا ہوں کہ تم قوموں کے نہیں بلکہ قوموں کے ہجوم کے باپ بنو گے۔ آج سے تمہارا نام ابرام (معزز باپ) نہیں، بلکہ ابراہیم (قوموں کا باپ) ہوگا، کیونکہ میں تمہیں بہت سی قوموں کا باپ بنا چکا ہوں۔ تمہاری نسل سے نہ صرف قومیں جنم لیں گی، بلکہ بادشاہ بھی پیدا ہوں گے۔”
رب کا فرمان جاری رہا: “میرا عہد، جو زوال سے پاک ہے، تمہارے ساتھ اور تمہاری پشتوں کے ساتھ قائم رہے گا۔ کنعان کی وہ سرزمین جس میں آج تم مہاجر ہو، میں اسے تمہیں اور تمہاری نسل کو ہمیشہ کے لیے عطا کروں گا۔ میں تمہارا بھی رب ہوں گا اور تمہاری نسل کا بھی۔ تمہارے لیے اور تمہاری نسلوں کے لیے اس عہد کی نشانی یہ ہوگی کہ ہر نومولود لڑکے کا آٹھویں دن ختنہ کیا جائے۔ یہی نشانی میرے اور تمہارے درمیان ہمارے عہد کی علامت ہوگی۔ تمہارے گھر کے تمام مرد، خواہ گھر کے ہوں یا خریدے گئے غلام، سب اس حکم میں شامل ہوں گے۔ جو مرد اس فرض کو نہ اپنائے، وہ میرے عہد کی حرمت کو توڑنے والا شمار ہوگا، اور قوم سے خارج کیا جائے گا۔”
رب تعالیٰ نے پھر فرمایا: “میں سارئی پر بھی نظرِ کرم کرنے والا ہوں، اس کے بطن سے تمہیں بیٹا عطا ہوگا۔ میں اسے اس قدر بلند کروں گا کہ وہ اقوام کی ماں — اُمّ الاقوام — کہلائے گی، بلکہ اُمّ الملوک ہوگی۔ آج سے اس کا نام سارئی نہیں، بلکہ سارہ ہوگا۔”
حضرت ابراہیم، جو رب کی رحمت سے معمور ہو چکے تھے، سجدے میں گرے اور زیرِ لب مسکرا کر سوچنے لگے: “نوے برس کی بوڑھی اور سو برس کا مرد، کیا واقعی اولاد جنیں گے؟” اور نہایت عاجزی سے عرض کیا: “اے میرے مولا! اگر اسماعیل تیرے حضور جیتا سلامت رہے، تو میرے لیے یہی کافی ہے۔”
رب تعالیٰ نے جواب دیا: “ٹھیک ہے، میں نے اسماعیل کے حق میں تمہاری دعا سن لی ہے۔ میں اسے برکت دوں گا، اس کی نسل سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور ایک عظیم امت بنے گی۔ لیکن عہدِ وارث اور نبوت کا امین اسحاق ہوگا — وہی اسحاق جو سارہ کے بطن سے آئندہ سال ان ہی دنوں پیدا ہوگا۔ تمہارے ساتھ جو عہد میں نے باندھا ہے، وہ اسحاق اور اس کی نسل کے ساتھ ہمیشہ قائم رہے گا۔”
یہ بشارت مکمل ہوئی تو تجلیِ الٰہی حضرت ابراہیم سے رخصت ہو گئی — مگر دل پر عہدِ ربانی کی مہر ثبت ہو چکی تھی، اور آنکھیں اس نور سے روشن ہو گئی تھیں جو صرف وعدۂ یقین اور نبوت کے حاملین کو عطا ہوتا ہے۔ وقت کے عین مطابق، ایک سال بعد حضرت اسحاق کی ولادت ہوئی، اور یوں نبوت کا قافلہ ایک نئے چراغ کے ساتھ روشن ہو گیا۔
ضرت شیخ سعدی شیرازیؒ
به جهان خرم از آنم که جهان خرم از اوست
عاشقم بر همه عالم که همه عالم از اوست
تشریح:
مجھے یہ دنیا اس لیے محبوب ہے کہ یہ اس کے نور سے روشن ہے،
میں ہر انسان سے محبت رکھتا ہوں کیونکہ ہر ایک اُسی رب کا عکس ہے۔
یہ اشعار حضرت ابراہیم کے دل کی وسعت کی ترجمانی کرتے ہیں — جنہوں نے اپنے بیٹے کے لیے بھی دعا کی، اپنی بیوی کے لیے بھی، اور اُن کے لیے بھی جو غلام تھے، لیکن وہ سب رب کی نگاہ میں تھے، اسی لیے حضرت ابراہیم کا قلب وسعتِ رحمت کا آئینہ بن گیا، اور وہ عہدِ نبوت کے وارث بنے۔
روحانی نتائج
- عہد، قربانی کا تقاضا کرتا ہے
رب نے ختنہ کو اس عہد کی نشانی بنایا تاکہ جسم بھی اس قربانی کا گواہ ہو جو روح پہلے ہی پیش کر چکی ہوتی ہے۔ - نام کی تبدیلی، روحانی مقام کی تبدیلی ہے
جب ابرام کو “ابراہیم” کہا گیا، تو یہ صرف ایک لفظی تغیر نہیں تھا — یہ نبوت کے دائرے میں داخل ہونے کا روحانی اذن تھا۔ - وارث وہی ہوتا ہے جو رب کی بشارت پر ایمان لاتا ہے
حضرت ابراہیم کی مسکراہٹ میں شک نہ تھا بلکہ محبت کی عاجزی تھی — اور اسی لیے وہ وارثِ نبوت کے ساتھ وارثِ وفا بھی بنے۔
اختتام
باب چہارم ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ عہدِ ربانی ہمیشہ کسی ایسے دل کو عطا ہوتا ہے جو بندگی کی گہرائی میں سجدہ ریز ہو، جو خدا کی عطا کو وقت سے نہیں، وعدۂ یقین سے ناپے، اور جس کی نگاہ نسل، زمین اور نام سے آگے، قربِ الٰہی کے چراغ کی تلاش میں ہو۔ حضرت ابراہیم کا سجدہ، ان کی دعا، ان کا یقین — سب ایک ساتھ وہ چراغ بنے جنہوں نے نسلِ نبوت کو روشنی عطا کی۔ اور یوں اسحاق کے ذریعے نہ صرف ایک بیٹا آیا، بلکہ ایک قوم، ایک عہد، اور ایک تسلسلِ رسالت روشن ہوا۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔