ژالہ باری کا طوفان اور فرعون کی فریب کاری
جب زمین غرور سے بوجھل ہو جائے اور دل ہدایت کی روشنی کو ٹھکرا دیں، تو ربّ قہار اپنی قدرت کو اس انداز میں ظاہر کرتا ہے کہ آسمان لرز اُٹھتا ہے، زمین دہل جاتی ہے، اور ہر وہ شخص جو خود کو طاقتور سمجھتا ہے، اپنے ہی الفاظ میں ڈوبنے لگتا ہے۔
فرعون کی مسلسل نافرمانی اور وعدہ خلافی کے بعد، اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو دوبارہ کلام فرمایا: “اے موسیٰ! کل صبح سویرے اُٹھ کر اس سرکش فرعون کے پاس جا، اور اُسے میرا پیغام پہنچا دے۔ کہہ دے کہ ربّ العالمین، وہ جو بنی اسرائیل سے دائمی عہد رکھتا ہے، فرماتا ہے: میرے بندوں کو آزاد کر دے تاکہ وہ صحرا میں جا کر میری عبادت کریں۔”
پھر ارشاد ہوا: “اے فرعون! اگر تو اب بھی انکار پر اصرار کرتا ہے، تو جان لے کہ میں اپنی قدرت سے ایک ایسا ژالہ باری کا طوفان نازل کروں گا، جس کی مثال نہ تیری سلطنت نے کبھی دیکھی، نہ تاریخ نے کبھی سنی۔ اگر چاہتا تو تجھے ایک ہی بار ہلاک کر دیتا، مگر میں نے تجھے چھوڑ رکھا ہے تاکہ تُو میری قدرت کا مشاہدہ کرے، اور روئے زمین کا ہر ذی نفس جان لے کہ بادشاہی صرف میرے لیے ہے، تیرے لیے نہیں۔”
حضرت موسیٰؑ نے ربّ کے حکم کی تعمیل کی، اور صبح فرعون کے دربار میں یہ پیغام پہنچایا۔ اگلے دن اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو ارشاد فرمایا: “اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر، تاکہ ژالہ باری کا طوفان نازل ہو!”
جب نبی نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اُٹھایا، تو قہرِ الٰہی نے اپنا جلوہ دکھایا۔ تیز رعد و برق، دہاڑتی ہوئی گرج چمک، اور پھر اولوں کی ایسی برسات کہ مصر کا ہر گوشہ کانپ اُٹھا۔ جو کچھ بھی کھلے آسمان کے نیچے تھا انسان ہو یا جانور، فصل ہو یا درخت سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ لوگ دوڑتے، چیختے، پناہ ڈھونڈتے، مگر کوئی پناہ نہ ملتی تھی۔ یہ قہر ایسا تھا کہ خود آسمان بھی گویا اپنی گواہی دے رہا تھا کہ بادشاہی صرف اللّٰہ کی ہے۔
مگر عجب کرم کا مظہر تھا کہ وادئ طُوملات، جہاں بنی اسرائیلی سکونت پذیر تھے، اس عذاب سے بالکل محفوظ رہا۔ وہاں نہ ایک اولہ گرا، نہ ایک درخت جھکا، نہ ایک فصل جلی۔ یوں قہر کے درمیان بھی رحمت کا جلوہ نظر آیا۔
فرعون، جس کے دربار کی چھت بھی اولوں کی گھن گرج سے لرز رہی تھی، گھبرا کر حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کو بلوا بھیجا۔ وہ عاجزی سے کہنے لگا: “بے شک ہم خطاکار ہیں، اور تمہارا رب ہی سچا ہے۔ خدا کے واسطے، اس طوفان کو رکواؤ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم کو فوراً آزاد کر دوں گا۔”
حضرت موسیٰؑ نے تحمل سے جواب دیا: “میں شہر سے باہر نکل کر اپنے رب سے دعا کروں گا۔ جیسے ہی میرے ہاتھ دعا کے لیے اٹھیں گے، گرج چمک رُک جائے گی اور ژالہ باری ختم ہو جائے گی۔ لیکن اے فرعون! میں جانتا ہوں کہ تیرے اور تیرے درباریوں کے دلوں میں ابھی تک رب کا خوف پیدا نہیں ہوا، پھر بھی رب کی رحمت وسیع ہے۔”
حضرت موسیٰؑ شہر سے باہر گئے، اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔ اسی لمحے آسمان پر چھائے ہوئے بادل چھٹنے لگے، رعد و برق تھم گئی، اور ژالہ باری کی شدت گویا یکدم غائب ہو گئی۔ پورا مصر سکون میں آ گیا مگر دل کا طوفان ابھی باقی تھا۔
فرعون اور اس کے درباریوں نے جیسے ہی یہ منظر دیکھا، تو ان کی فطرتِ منافقہ پھر جاگ اُٹھی۔ انہوں نے فوراً اپنا وعدہ توڑ دیا، بنی اسرائیل کو روک لیا، اور حضرت موسیٰؑ کی باتوں کو ایک بار پھر جھٹلا دیا۔
حضرت شیخ سعدیؒ
برقِ قہر آید ز رحمت گر حذر ناید کسی
بادشاہی با خداست و بندگی شرمندگی
تشریح:
جب بندہ رب کی رحمت سے فائدہ نہ اٹھائے تو پھر قہر کی بجلی اس پر نازل ہوتی ہے۔ اصل بادشاہی صرف خدا کی ہے، باقی سب بندگی ہے اور جو بندہ بننے سے انکار کرے، وہ ذلیل ہوتا ہے۔
نتائج:
- اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت انسان کی عقل سے بلند ہے؛ وہ ایک اولہ بھی پوری سلطنت کو جھکا سکتا ہے۔
- جھوٹی توبہ، وقتی عذاب سے بچا سکتی ہے، مگر حق کو قبول کیے بغیر نجات ممکن نہیں۔
- بنی اسرائیل پر ہونے والی رحمت اس بات کا اعلان ہے کہ اللّٰہ کی پناہ صرف نیکوں کے لیے ہے۔
- فرعون کا ہر وعدہ دراصل آزمائش کا میدان تھا جو اس کے جھوٹ کو بے نقاب کرتا رہا۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ قہر کے طوفان میں بھی رب کی رحمت اہلِ حق کے لیے سایہ بن جاتی ہے، اور جھوٹے دلوں کا عہد عذاب کو ٹال نہیں سکتا۔ حضرت موسیٰؑ کی دعا، ژالہ باری کی شدت، اور فرعون کی وعدہ خلافی، سب ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسان کا اختیار نہیں، اطاعت ہی اصل آزادی ہے۔ اور جب بادشاہوں کے تخت کانپنے لگیں، تب صرف رب کی بادشاہی باقی رہتی ہے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔