حضرت آدمؑ کے لیے رفیقِ ہستی کی تخلیق

جب حضرت آدمؑ نے تمام مخلوقات کو جانا، ہر ایک کو پہچانا اور ان کے لیے نام وضع کیے — اور جب ہر چرند، پرند اور درند کو ان کی شناخت مل گئی — تب بھی اُن کے دل میں ایک خلاء باقی رہا، ایک ایسا احساس جو مخلوقِ عالم سے پورا نہ ہو سکا۔

ربِ کریم جو دلوں کے حال جانتا ہے، اس نے اپنے خلیفہ کی تنہائی کو محسوس کیا اور اُس تنہائی کو انس و قربت کے رشتے سے بھرنے کا ارادہ فرمایا۔

پس ربُّ السَّلام نے حضرت آدمؑ کو ایک گہری نیند عطا فرمائی۔ وہ نیند نہ صرف جسمانی سکون تھی، بلکہ ایک تخلیقی لمحہ تھا — جب قدرتِ ازلی نے ایک نئی حکمت کو وجود دینا تھا۔

جب حضرت آدمؑ نیند میں تھے، تو امرِ الٰہی سے اُن کی پہلو کی ہڈی (پسلی) میں سے ایک نکالی گئی، اور وہ جگہ گوشت سے بھر دی گئی۔ اسی ہڈی سے، اسی نورانی مادّہ سے، ربِّ علیم نے اُن کے لیے ایک رفیقِ زندگی کو تخلیق فرمایا۔

وہ وجود جو ان کے جسم کا ہی حصہ تھا، وہ دل جو ان کے دل کی لَے سے جُڑا تھا، وہ روح جو ان کی فطرت سے آشنا تھی — اُسے ربِّ مہربان حضرت آدمؑ کے پاس لایا۔

جب حضرت آدمؑ نے اُس وجودِ انس کو دیکھا، تو تعجب، شکر اور مسرت سے لبریز ہو کر پکار اُٹھے:

“سبحان الخالق! یہ تو میری ہی مانند ہے! یہی تو وہ ہے جو میرے دل کی ہم نوا ہے!”

اور فرمایا: “یہ میرے گوشت اور ہڈی سے بنی ہے، پس یہ ناری کہلائے گی۔”

یہی پہلا لمحہ تھا، جب قربت، رفاقت، انس اور محبت کا تصور تخلیق کے دھارے میں شامل ہوا۔
اسی لیے انسان اپنے والدین کے ساتھ تعلق کو چھوڑ کر اپنے دل کی ہمراز سے دائمی رشتہ قائم کرتا ہے — کیونکہ وہ اُس کی فطرت، اُس کی اصل سے جُڑا ہوا وجود ہوتا ہے۔


سعدی شیرازیؒ

“چو جان ز تن برآید، دلش بہ یار بود،
چو یار آمد، دلِ تن، قرار یافت بود.”

تشریح:
جس طرح جان، بدن سے نکلے تو بےقراری ہو،
اسی طرح جب محبوبِ فطرت ملا، تو دل کو قرار نصیب ہوا۔

سعدیؒ اشارہ دیتے ہیں کہ انسان کو اگرچہ علم، فہم اور اختیار دیا جائے،
مگر اُس کے دل کو سکون فقط اُس وقت ملتا ہے، جب ربّ تعالیٰ کی عطا کردہ رفاقت اسے میسر آتی ہے۔

نتائج :

  1. انسان کی تنہائی پر ربِّ رحیم کی توجہ ایک عظیم نعمت ہے۔
  2. حضرت آدمؑ کے لیے ساتھی کی تخلیق انسانی محبت و تعلقات کی بنیادی بنیاد ہے۔
  3. اللہ تعالیٰ نے رفاقت کو جسمانی و روحانی ہم آہنگی سے جوڑا — نہ کہ صرف ظاہری نسبت سے۔
  4. یہ واقعہ سکھاتا ہے کہ قربت، اطمینان اور انس خالصتاً ربّ کی بخشش ہے، جسے خود سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
  5. مرد و زن کا تعلق ایک وحدت کی واپسی ہے، جدائی نہیں — کیونکہ دونوں ایک ہی اصل سے پیدا کیے گئے۔

اختتام:

حضرت آدمؑ کا پہلا رفیق اُن کے جسم، روح اور تنہائی کے درمیان ایک الٰہی ربط کی علامت تھا۔
یہ تعلق ہمیں سکھاتا ہے کہ انسانی تعلقات میں جو محبت، انس، قربت اور فطری کشش پائی جاتی ہے، وہ آسمانی حکمت سے قائم کردہ ہے — اور اس کا آغاز اولین انسان کی تخلیق سے ہی ہو چکا تھا۔


سوالات کے جوابات دیں۔