سبق نمبر 4- تخلیقِ مددگار

اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے حضرت آدمؑ کو گہری نیند بخشی گئی۔ جب حضرت آدمؑ گہری نیند سو رہے تھے تب  اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے حضرت آدمؑ کی دونوں پسلیوں میں سے ایک پسلی نکل گئی اور اُس پسلی کی جگہ گوشت بھر گیا اور جو پسلی اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے نکلی تھی اُس سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے (بی بی حواؓ) کو تخلیق کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ (بی بی حواؓ) کو حضرت آدمؑ کے پاس لائے اور (بی بی حواؓ) کو دیکھ کر حضرت آدمؑ  پکار اُٹھے، ”سبحان اللّٰہ! یہ تو مجھ جیسی ہی ہے۔  یہ ہی تو میرا ساتھی ہے۔ حضرت آدمؑ نے کہا یہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر کی ہڈی اور گوشت سے نکالی گئی ہے۔“ (اسی وجہ سے مرد کا یہی جذبہ اپنے والدین سے منہ موڑ لینے اور اپنی رفیقِ حیات سے رشتہ سے رشتہ جوڑ کر ایک جان و دل ہونے کا سبب بنا۔) اُس باغِ عدن (جنت فردوس) میں حضرت آدمؑ (بی بی حواؓ) بغیر کپڑوں کے تھے لیکن یہ اُن دونوں کے لئے شرم کا باعث نہیں تھا۔

سبق کا خلاصہ

بی بی حوا ؓ دنیا کی پہلی خاتون، پہلی بیوی اور تمام انسانو ں کی ماں ہیں ۔ آپؓ حضرت آدمؑ کی زوجہ تھیں۔ جیساکہ توارۃ شریف میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت آدمؑ کی تخلیق ہوئی تو تنہا ہونے کے سبب آپؑ بہت اداس اور بے قرار رہا کرتے تھے۔ ان کی افسردگی و اضطراب کو دیکھ کر ایک روز اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس وقت،جبکہ حضرت آدمؑ سو رہے تھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دونوں پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اُس پسلی میں سے بی بی حوا ؓکو تخلیق کیا اور یہ پسلی نکالنے سے حضرت آدمؑ کو کوئی دکھ یا تکلیف محسوس نہ ہوئی۔ دکھ اور تکلیف نہ ہونے کا سبب علماء کی نگاہ میں یہ ہے کہ اگر ایسا ہونے میں حضرت آدمؑ کو کسی طرح کی ایذا پہنچتی تو ان کے دل میں بی بی حواؓ کے لئے ویسی محبت و اپنائیت پیدا نہ ہوتی جیسی کہ ہونی چاہیے تھی۔ گویا میاں بیوی کے باہمی تعلق کو خوشگوار بنانے اور ان میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مرد کو عورت کی تخلیق کا سبب بننے کے باوجود کسی طرح کی تکلیف سے محفوظ رکھا گیا۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔