زمینی مشقت اور حضرت آدمؑ کا مقدر

جب حضرت آدمؑ اور اُن کی زوجہ سے شجرِ ممنوعہ کے بارے میں نافرمانی ہوئی، تو یہ انسان کی پہلی آزمائش کا لمحہ تھا۔ ربّ کریم، جو صرف سزا دینے والا نہیں بلکہ تربیت کرنے والا، رحم فرمانے والا اور دانا پروردگار ہے، اُس نے حضرت آدمؑ کو اُس نافرمانی کا نتیجہ سمجھاتے ہوئے زمین پر زندگی کی حقیقت سے روشناس کروایا۔

اللہ ربّ العزت نے فرمایا:

“اے آدم! چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کا پھل کھایا جس سے میں نے منع کیا تھا، اب یہ زمین تیری آزمائش کا مقام ہے۔ تُو یہاں مشقت سے رزق کمائے گا، محنت کرے گا، پسینہ بہائے گا، اور زندگی کی نعمتیں تلاش کرے گا۔ زمین تجھے سبزہ بھی دے گی اور کانٹے بھی۔ یہاں تُو جئے گا اور اسی مٹی میں واپس لوٹے گا، کیونکہ تُو مٹی سے بنا ہے اور مٹی ہی تیری آخری منزل ہے۔”

یہ سزا نہیں بلکہ انسان کی تربیت اور اس کی فطرت کے بیدار ہونے کا پہلا قدم تھا۔

روحانی نکتہ:

زمین پر آنا زوال نہیں تھا، بلکہ امتحان اور ارتقاء کا آغاز تھا۔ ربّ تعالیٰ نے انسان کو نافرمانی کے بعد بھی دھتکارا نہیں، بلکہ اُسے زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا تاکہ وہ محنت، علم، اور بندگی کے ذریعے اپنی اصل جنت دوبارہ حاصل کرے۔


“نظامی گنجوی” فرماتے ہیں:

“چو آدم خطا کرد و نادم بُدی
ز لطفِ خدا شد به رحمت رَوی”

یعنی:
“جب آدمؑ سے خطا ہوئی اور وہ نادم ہوا،
تو رب کی عنایت نے اُسے اپنی رحمت کی طرف لوٹایا۔”


نتائج:

  1. انسان کو یہ سکھایا گیا کہ زندگی میں کامیابی صرف جنت سے نہیں، محنت اور اطاعت سے ملتی ہے۔
  2. حضرت آدمؑ کی آزمائش دراصل ہم سب کی روحانی میراث ہے۔
  3. زمین پر رزق کمانا، عبادت کرنا، تکلیف سہنا، سب انسان کی روحانی تربیت کا حصہ ہے۔
  4. ربّ کریم کی عدل کے ساتھ رحمت بھی ہمیشہ شامل ہوتی ہے — وہ سزا دے کر بھی راستہ دکھاتا ہے۔
  5. انسان اگر گرتا ہے، تو اٹھنے کا دروازہ بھی کھلا ہوتا ہے — وہ در توبہ اور اصلاح کا در ہے۔

اختتام:

یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ:

ہر خطا کے بعد درِ رحمت بند نہیں ہوتا،

ہر مشقت کے پیچھے ایک مقصد چھپا ہوتا ہے،

اور ہر زمین پر بکھرا پسینہ، ربّ کی خوشنودی کی طرف ایک قدم ہوتا ہے۔

پس اے آدم کے فرزند!
زندگی کے ہر لمحے کو، ہر تکلیف کو، اور ہر رزق کی جدوجہد کو ربّ کی رضا کی تلاش سمجھ کر گزار،
کیونکہ یہی راستہ ہے تیری اصل جنت کی واپسی کا۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔