ازگشتِ کنعان – حضرت یعقوبؑ کا سفرِ وفا اور نامِ اسرائیل کی عطا
جب بندہ وقت کی گزرگاہوں سے گزر کر وعدے کے مقام پر واپس آتا ہے، تو ہر لمحہ اُس کی وفا کا گواہ، اور ہر منزل اُس کے رب کی تجلی کا پتہ دیتی ہے۔ حضرت یعقوبؑ کی واپسی، محض گھر کی طرف لوٹنا نہ تھا، بلکہ ایک عہد کی تکمیل، اور ایک نام کی نئی شروعات تھی — وہ نام جو صرف ایک انسان کا نہ رہا، بلکہ ایک قوم کی شناخت بن گیا۔
تقریباً بیس برس تک خاران کی سرزمین میں صبر اور اطاعت کی زندگی گزارنے کے بعد، حضرت یعقوبؑ نے اپنے سسرال کو الوداع کہنے کا ارادہ فرمایا۔ آپؑ نے اپنی ازواجِ مطہرات، اپنے گیارہ بیٹوں، مال و اسباب، اور سبھی برکتوں کو ساتھ لیا، اور اُس مقدس سرزمین کنعان کی طرف روانہ ہو گئے — جہاں ان کے والد حضرت اسحاقؑ اور دادا حضرت ابراہیمؑ نے اپنے رب کے وعدوں کی روشنی میں زندگی بسر کی تھی۔
کنعان میں جب حضرت یعقوبؑ دوبارہ وارد ہوئے تو آسمانی تجلی نے اُن کا استقبال کیا۔ ربِ قدیر کی طرف سے یہ اعلان ہوا: “اب تیرا نام یعقوبؑ (یعنی ایڑی پکڑنے والا) نہ ہوگا، بلکہ اسرائیل (یعنی غالب آنے والا) کہلائے گا۔ میں تیرا رب ہوں۔ تیرے وجود سے نہ صرف ایک قوم بلکہ کئی اقوام جنم لیں گی، اور تیرے صلب سے بادشاہ پیدا ہوں گے۔ یہ وہی سرزمین ہے جو میں نے ابراہیمؑ اور اسحاقؑ کو عطا کی تھی، اب تجھے اور تیری نسل کو میراث کے طور پر دی جاتی ہے۔”
تجلی کے اس لمحے کے بعد، حضرت یعقوبؑ نے ایک پتھر کو کھڑا کیا، اُس پر نبیذ اور روغن بہایا، اور اُس مقام کو “بیت ایل” (اللہ کا گھر) کا نام دیا۔
اُس کے بعد حضرت یعقوبؑ کا قافلہ “افراتہ” کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں بی بی راحلہؓ کو دردِ زہ لاحق ہوا، جو اس قدر شدید تھا کہ وہ جاں بہ لب ہو گئیں۔ دائی نے ان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا: “گھبراؤ مت بی بی! اب کے بھی بیٹا ہی ہوگا۔” مگر یہ درد الوداعی ثابت ہوا۔
بی بی راحلہؓ نے اپنی آخری سانسوں میں خواہش کی کہ بچے کا نام “بنونی” رکھا جائے — یعنی “وہ بیٹا جسے میں نے تکلیف میں جنا۔” مگر حضرت یعقوبؑ نے اُس بچے کو محبت سے “بنیامینؓ” کا نام دیا — یعنی “وہ بیٹا جو میرے دائیں ہاتھ کا سہارا ہے۔”
افراتہ کے راستے میں بی بی راحلہؓ نے وصال فرمایا، اور حضرت یعقوبؑ نے بڑی محبت اور احترام سے ان کی تدفین کی۔ اُن کی قبر پر ایک یادگاری پتھر نصب کیا، جو آج بھی بیت لحم کے قریب “راحلہ کی قبر” کے نام سے معروف ہے۔
اس کے بعد حضرت یعقوبؑ میمرے کے جنگل کی طرف روانہ ہوئے، جو الخلیل کے قریب اُن کے اجداد کی جائے اقامت تھا۔ وہاں پہنچ کر اُن کے والد، حضرت اسحاقؑ نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ وہ 180 برس کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ حضرت عیسوؓ اور حضرت یعقوبؑ دونوں نے مل کر نہایت ادب اور عزت سے اپنے والد کی تجہیز و تکفین انجام دی — اور یوں خاندانِ نبوت کا ایک اور روشن چراغ اپنے رب کی بارگاہ میں لوٹ گیا۔
شیخ فخرالدین عراقی فرماتے ہیں
باز آمد آن یارِ سفر رفتهٔ دیر با داغِ فراق و نوائے تقدیر
ترجمہ:
وہ یار جو مدتوں پہلے سفر پر گیا تھا، واپس آیا یادوں کے داغ لیے، اور تقدیر کی نغمگی لیے۔
تشریح:
شیخ فخرالدین عراقی فرماتے ہیں کہ جب کوئی عاشق طویل جدائی کے بعد واپس آتا ہے، تو اُس کی آنکھ میں فراق کا نم، اور دل میں وفا کی روشنی ہوتی ہے۔ حضرت یعقوبؑ کی واپسی بھی ایک ایسا ہی لمحہ تھی جس میں خواب کی تکمیل، نام کی تبدیلی، اولاد کی نعمت، اور جدائی کا زخم سب شامل تھے۔
بی بی راحلہؓ کا وصال، بنیامینؓ کی ولادت، اور حضرت اسحاقؑ کا دنیا سے رخصت ہونا یہ سب واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ دکھ اور راحت، وصال اور فراق، ایک ہی سفر میں ملتے ہیں اور یہی ایمان والوں کا مقامِ رضا ہے۔
نتائج
اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمیشہ پورے ہوتے ہیں، اگرچہ وقت درکار ہو۔
جو نام رب عطا کرے، وہ محض الفاظ نہیں بلکہ روحانی شناخت ہوتے ہیں۔
دکھ اور خوشی کی آمیزش مومن کی راہ میں نعمت کی مانند ہے۔
ماں کی جدائی اور بیٹے کی ولادت دونوں میں ایک حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔
والد کی خدمت اور تجہیز و تکفین میں شرکت، اولاد کی سب سے بڑی سعادت ہے۔
اختتامیہ:
حضرت یعقوبؑ کی واپسی ایک عظیم سبق ہے کہ جب رب وعدہ کرے، تو مسافر کبھی تنہا نہیں رہتا۔ ہر قدم جو اُس کی رضا کے لیے اٹھے، وہ نور بن جاتا ہے۔ اور جب رب کسی کو “اسرائیل” کا نام عطا کرے، تو وہ فقط ایک فرد نہیں رہتا، بلکہ امتوں کی بنیاد، اور تاریخ کے سینے پر لکھا ہوا ایک آسمانی عنوان بن جاتا ہے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔