وصیتِ نبوت: حضرت یعقوبؑ کا دیدار، دعا اور آخری فرمان
جب فراق کے لمحے وصال سے مہکنے لگیں اور تقدیر کی روشنی سجدوں میں نرمی سے اتر آئے، تو سمجھ لیجیے کہ ایک نبی اپنے آخری سفر کی جانب بڑھ رہا ہے۔ وادئ طوملات کی سرزمین، جو اب صرف مہمان نوازی کی نہیں بلکہ برکت و نور کی بستی بن چکی تھی، حضرت یعقوبؑ کے لیے سکون کا مقام بنی وہ یوسفؑ جن کے غم میں آنکھوں نے روشنی گنوائی، آج اُن کی صحبت میں ہر لمحہ اجالا بن چکا تھا۔
سترہ سال مصر میں قیام فرما کر جب عمر مبارک 147 برس کو پہنچی تو حضرت یعقوبؑ نے اپنے جگر گوشہ حضرت یوسفؑ کو بلایا۔ آواز میں وصیت کی گمبھیرتا تھی، چہرے پر وقت کی حکمت، اور دل میں ایک آخری دعا:
“اے بیٹے! اگر میری آنکھیں بند ہوں تو مجھے اس ارضِ غربت میں نہ دفن کرنا، بلکہ لے جا کر میرے باپ حضرت اسحاقؑ اور جد حضرت ابراہیمؑ کے پہلو میں دفن کرنا۔”
حضرت یوسفؑ نے عرض کیا: “جیسا آپ حکم فرمائیں گے ویسا ہی ہوگا۔”
مگر حضرت یعقوبؑ نے فرمایا: “نہیں، بیٹے! میرے ہاتھ میں ہاتھ دو، وعدہ کرو تاکہ میں اطمینان سے اپنے پروردگار کی طرف لوٹ سکوں۔”
اور جب حضرت یوسفؑ نے والد کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وعدہ کیا، تو حضرت یعقوبؑ نے شکر کا سجدہ بجا لایا، گویا اُن کی روح کو قرار آ گیا۔
کچھ دنوں بعد جب بیماری کا ہلکا سا سایہ آپؑ کے بستر پر اتر آیا، حضرت یوسفؑ اپنے دونوں بیٹوں حضرت منسّیؑ اور حضرت افرائیمؑ کے ساتھ ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ حضرت یعقوبؑ نے کمزور جسم کے ساتھ ہمت کر کے بستر پر بیٹھ کر فرمایا:
“بیٹے! کنعان میں ربِّ رحیم نے مجھ پر تجلی کی، بیت ایل میں مجھے اپنا جلوہ دکھایا، اور یہ وعدہ فرمایا کہ تجھے نسلوں کی کثرت سے نوازوں گا اور یہ سرزمین تیری اولاد کی میراث بنے گی۔”
پھر اپنی نگاہیں حضرت یوسفؑ کے بیٹوں پر ڈال کر فرمایا: “یہ دونوں بھی میری نسل میں شامل ہوں گے نہ صرف میرے نواسے بلکہ میرے بیٹے کے درجے پر کیونکہ نیکی کے بیج وہی ہوتے ہیں جو دل سے بوئے جاتے ہیں۔”
پھر حضرت یعقوبؑ نے اپنے سب بیٹوں کو بلایا، اُنہیں اپنے گرد جمع کیا، اور محبت، حکمت اور روحانیت سے لبریز برکت کی دعائیں دیں۔ اُن کے کلمات میں نہ صرف دعاؤں کی گونج تھی، بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے نبوت کی حکمت اور نجات کا نشان تھا۔
شیخ سعدیؒ
دعای پیر اگر باشد، نرود بیاثر
ز دل برآید و بر دل نشیند چو سحر
تشریح: شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ بزرگ کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی وہ دل سے نکلتی ہے اور دلوں میں اتر جاتی ہے جیسے صبح کی پہلی کرن۔ حضرت یعقوبؑ کی دعائیں بھی ایسی ہی تھیں، جنہوں نے نسلوں کو روشنی بخشی۔
نتائج:
- وصیتِ نبی فقط موت کی تیاری نہیں، بلکہ نسل کی تربیت اور بصیرت کی میراث ہوتی ہے۔
- ماں باپ کی رضا اور دعا اولاد کے لیے دنیا و آخرت میں سب سے عظیم تحفہ ہے۔
- نیک اولاد، والدین کی دعاؤں کی تعبیر ہوتی ہے۔
- ہر نبی کا فرمان آئندہ زمانوں کے لیے چراغِ راہ ہوتا ہے۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ موت کا لمحہ بھی نور بن سکتا ہے اگر انسان یقین، اطاعت، اور دعا کے راستے پر چلے۔ حضرت یعقوبؑ نے دکھ کو حکمت میں بدلا، وصال کو دعا میں ڈھالا، اور اپنا دل نبی کے بیٹے کے سپرد کر کے رب کے دربار کی طرف ہجرت کی۔ ایسی موت، ایک نبی کی فتح ہوتی ہے وصیتِ رحمت، دعا کی مہک، اور بشارت کی گواہی۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔