حضرت یوسفؑ کا انکشاف

کبھی کبھی سچائی برسوں کے پردوں میں چھپی رہتی ہے، مگر جب حق خود بول اٹھے، تو خاموشی بھی پگھل جاتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کا یہ لمحہ نہ صرف انکشاف کا وقت تھا بلکہ صبر، درگزر اور الٰہی مشیّت کی بلند ترین جھلک تھی۔ یہ سبق ہمیں دکھاتا ہے کہ جب دل صداقت پر جما ہو، تو وہی لمحہ آتا ہے جب دشمنی بھائی چارے میں، اور جدائی وصال میں بدل جاتی ہے۔

ملنے کے بعد حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوںؓ سے کہا: “میں یوسفؑ ہوں۔ مجھے سچ بتاؤ کہ اباجانؑ حیات ہیں یا نہیں؟” یہ انکشاف ہوتے ہی حضرت یوسفؑ کے بھائیؓ حیرت اور خوف میں مبتلا ہو گئے۔

تب حضرت یوسفؑ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا: “میرے قریب آجاؤ۔” جب وہ نزدیک آگئے تو حضرت یوسفؑ نے فرمایا: “میں تمہارا بھائی یوسفؑ ہوں، جسے تم نے مصریوں کی غلامی کرنے کے لیے اسمٰعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔ اب تم گھبراؤ مت، نہ ہی خود کو الزام دو۔ یہ سب اُس ربِ بصیر کی مشیّت تھی جس نے مجھے تم سے پہلے یہاں بھیجا، تاکہ میں تمہاری زندگیاں بچانے کا سامان بنوں۔ قحط شروع ہوئے ابھی دوسرا سال ہے، اور ابھی مزید پانچ سال تک نہ بُوائی ہوگی اور نہ کٹائی۔”

“اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے ہی بھیج کر تمہارے آباؤ اجداد کی نسل کو محفوظ رکھنے کا بندوبست فرمایا۔ مجھے یہاں بھیجنا اُس کی حکمت تھی، اس میں تمہارا کوئی قصور نہ تھا۔ اُس کریم نے مجھے فرعون کا ہادی اور تمام مصر کا نگراں مقرر فرمایا ہے۔”

“اب جلدی واپس کنعان جاؤ اور اباجان کو میرا یہ پیغام دو کہ الحمدللہ اللہ نے مجھے پورے ملکِ مصر کا ناظمِ اعلیٰ مقرر کیا ہے۔ از راہ کرم ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر میرے پاس تشریف لائیں۔”

“آپ کے تمام اہل و عیال اور مال مویشی سب مصر میں میرے پاس رہیں گے۔ قحط ابھی پانچ سال مزید جاری رہے گا، اور میں آپ سب کی کفالت خود کروں گا۔”

پھر حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائی بنیامینؓ سے کہا: “میرے بھائی! اب تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور کانوں سے سن لیا کہ میں واقعی یوسفؑ ہوں۔ پس جلدی سے میرے سارے حالات اباجان کو جا کر سناؤ تاکہ وہ فوراً یہاں آجائیں۔”

یہ کہتے ہوئے حضرت یوسفؑ نے اپنی بانہیں بنیامینؓ کے گلے میں ڈال دیں، اور دونوں بھائی زار زار رو دیے۔

اس کے بعد حضرت یوسفؑ نے ایک ایک کرکے اپنے تمام بھائیوںؓ کو گلے لگایا اور روتے ہوئے ان کے بوسے لیتے رہے۔ تب جا کر ان لوگوں کی جان میں جان آئی اور وہ ڈرتے ڈرتے حضرت یوسفؑ سے گفتگو کرنے لگے۔

جب یہ خبر دربار میں پہنچی کہ حضرت یوسفؑ کے بھائی آچکے ہیں تو فرعون اور اس کے درباریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ فرعون نے پیغام بھجوایا:

“اپنے بھائیوںؓ سے کہو کہ اپنے جانور تیار کرکے واپس کنعان جائیں اور اپنے والد، بچوں اور مال و اسباب کے ساتھ مصر آ جائیں۔ ہم انہیں مصر کا بہترین علاقہ دیں گے اور ان کی کفالت کریں گے۔ اگر کچھ چھوڑنا پڑے تو پرواہ نہ کریں، کیونکہ مصر کی ہر نعمت ان کے لیے موجود ہے۔”

حضرت یوسفؑ نے فرعون کے حکم پر اپنے بھائیوں کو بیل گاڑیاں مہیا کیں، سفر کے لیے خوراک دی، اور سب کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا عطا کیا، جبکہ بنیامین کو خاص طور پر تین سو چاندی کے سکے اور پانچ جوڑے کپڑے عطا کیے۔

حضرت یوسفؑ نے اپنے والد کے لیے دس گدھوں پر عمدہ سوغاتیں اور دس پر سفر کے لیے سامان لدوایا، اور سب کو فی امان اللہ رخصت کیا۔


شیخ سعدیؒ

ز چشمِ دوست اگر بر دل زند تیر
زبانِ شکر گوید، جان پذیرد

تشریح:
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں: اگر دوست کی طرف سے دل پر تیر بھی آئے، تو زبان شکر ادا کرتی ہے اور جان خوشی سے قبول کرتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کے دل پر بھائیوں کا ظلم ایک تیر تھا، مگر انہوں نے شکوہ نہیں کیا، بلکہ فضل و درگزر کے ساتھ سب کو گلے لگا کر محبت کا دریا بہا دیا۔


نتائج:

  1. جس دل میں حلم اور درگزر ہو، وہی دل برکتوں کا مستحق بنتا ہے۔
  2. اللہ کے فیصلے ہمیشہ انسان کی بھلائی کے لیے ہوتے ہیں، اگرچہ وہ ابتدا میں تکلیف دہ لگیں۔
  3. درگزر کرنا وہ وصف ہے جو بھائیوں کو دشمنی سے محبت کی طرف لوٹا دیتا ہے۔
  4. جسے رب عزت دے، اسے کوئی غلامی چھین نہیں سکتی۔
  5. احسان کا بدلہ احسان سے نہیں، محبت اور عزت سے دینا ہی سنتِ انبیاء ہے۔

اختتامیہ:

حضرت یوسفؑ کا انکشاف، صرف ایک سچائی کا ظہور نہیں، بلکہ اخلاص، صبر، اور حکمت کا وہ نور ہے جو نسلوں کو روشنی عطا کرتا ہے۔ اُن کے الفاظ میں الزام نہیں، بلکہ تقدیر کے راز کا اعلان تھا۔ وہ جو کنعان میں بھائیوں کا سایہ بن کر پلتے تھے، آج مصر میں رب کے فیصلوں کا نگراں بن کر کھڑے تھے۔ یہ درس ہے کہ جو راہِ صداقت پر چلتا ہے، وہ آخرکار اپنوں سے گلے لگتا ہے نہ غصے سے، نہ بدلے سے، بلکہ آنسوؤں سے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔