سبق نمبر 4- حضرت یوسفؑ کا اپنے بھائیوںؓ پر ظاہر ہونا

ملنے کے بعد حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوںؓ سے کہا میں یوسفؑ ہوں۔ مجھے سچ بتاؤ کہ اباجانؑ حیات ہیں یا نہیں؟ یہ انکشاف ہوتے ہی حضرت یوسفؑ کے بھائیؓ حیرت اور خوف میں مبتلا ہو گئے۔ تب حضرت یوسفؑ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا: میرے قریب آجاؤ۔ جب وہ نزدیک آگئے تو حضرت یوسفؑ نے کہا:” میں تمہارا بھائی یوسفؑ ہوں جسے تم نے مصریوں کی غلامی کرنے کے لئے اِسمٰعیلِیوں کے ہاتھوں بیچ دیا تھا۔ اب تم گھبراؤ مت اور نہ ہی خود کو الزام دو یہ سب خدا تعالیٰ کی مشیّت تھی جس نے مجھے یہاں بھیجا کہ میں تمہاری زندگیاں بچانے کا سامان کروں اور قحط شروع ہوئے ابھی دوسرا سال ہے۔ ابھی مزید پانچ سال تک نہ بُوائی ہوگی اور نہ کٹائی” اَلْبَصِیر” نے مجھے پہلے ہی یہاں بھیج دیا تاکہ اس شدید قحط میں ہمارے آباؤاجداد کی نسل مٹ نہ جائے۔ مجھے یہاں بھیجنا خالص حکمت خدا تعالیٰ کی تھی اس میں تمہارا کوئی قصور نہ تھا۔
خدا تعالیٰ نے مجھے فرعون کا ہادی مقرر کیا ہے یعنی اس کی مملکت کا نگراں بلکہ یوں سمجھ لو کہ تمام ملکِ مصر کا حکمران! اب اے میرے بھائیوں:” جلدی واپس کنعان جاؤ اور ابا جان کو میرا یہ پیغام دو کہ ” الحمدللہ” خدا تعالیٰ نے مجھے پورے مصر کا ناظمِ اعلیٰ مقرر کر دیا ہے۔ از راہ کرم ایک لمحے کی بھی تاخیر کئے بغیر میرے پاس تشریف لے آیئے! آپ میرے تمام بہن بھائی اور اُن کے بال بچے اور مال مویشی سب یہاں میرے پاس مصر میں رہیں گے۔

قحط ابھی مزید پانچ سال تک جاری رہے گا اس لئے اگر آپ سب کو لے کر یہاں آجائیں تو میں آسانی سے آپ لوگوں کی کفالت کرسکوں گا ورنہ آپ لوگ فاقہ کشی کا شکار ہو جائیں گے۔
اس کے بعد حضرت یوسفؑ اپنے بھائی بنیامینؓ کی طرف پلٹے اور کہا: بنیامینؓ میرے بھائی! اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور کانوں سے سن کر یقین آگیا ہوگا کہ میں واقعی یوسفؑ ہوں۔ پس جلدی سے میری شان و شوکت کا سب حال ابا جانؑ کو جاکر سناؤ تاکہ وہ تمہارے ساتھ یہاں آجائیں۔ یہ کہتے ہوئے حضرت یوسفؑ نے اپنی بانہیں بنیامینؓ کے گلے میں ڈال دیں اور دونوں بھائی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگے۔ بنیامینؓ کے بعد حضرت یوسفؑ نے ایک ایک کرکے اپنے تمام بھائیوںؓ کو گلے لگایا اور روتے ہوئے اُن کے بوسے لیتے رہے۔ تب جاکر ان لوگوں کی جان میں جان آئی اور انہوںؓ نے ڈرتے ہوئے حضرت یوسفؑ سے بات چیت شروع کردی۔
جب یہ خبر دربار میں پہنچی کہ یوسفؑ کے ہاں اُس کے بھائی آئے ہوئے ہیں تو فرعون اور اُس کے درباریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ فرعون نے حضرت یوسفؑ کو پیغام بھیجا: اپنے بھائیوںؓ سے کہو کہ اپنے جانور تیار کرکے واپس کنعان جائیں اور اپنے والد اور بال بچوں کے لے کر یہاں آجائیں۔ میں انہیں نہ صرف وافر مقدار میں اناج فراہم کروں گا بلکہ رہنے کے لئے مصر کا بہترین علاقہ بھی دے دوں گا۔ اُن سے کہو کہ یہاں سے اپنے ساتھ بیل گاڑیاں لے جائیں اور اپنے والد، اپنی بیویوں اور بچوں سمیت جو کچھ اُن کے پاس ہے یہاں لے آئیں اور اگر کچھ چھوڑ چھوڑ کر آنا پڑے تو فکر نہ کریں کیونکہ پورے مصر کی ایک ایک بہترین چیز ان کے استعمال کے لئے موجود ہوگی۔
حضرت یوسفؑ نے فرعون کے حکم کے مطابق اپنے بھائیوںؓ کو بیل گاڑیاں مہیا کیں اور اُن کے سفر کے لئے انہیں خوراک بھی دی۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوںؓ کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا دیا لیکن بنیامین کو چاندی کے تِین سَو سِکّے اور پانچ جوڑے کپڑے دیئے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کے لئے دس گدھوں پر بہترین سوغاتیں اور دس گدھوں پر مصر کے سفر کے لئے خوراک لاد کر بھجوادی۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوںؓ کو فی امان اللہ کہہ کر کنعان کے لئے رخصت کردیا۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔