حضرت یوسفؑ کی قید میں روشنی

جب کسی قلبِ مطمئن میں صبر کی خوشبو بستی ہو، اور زبان ذکرِ حق سے تروتازہ ہو، تو قید خانہ بھی “خلوتِ عرفان” بن جاتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کی قید، دراصل ان کے دل کے افق پر طلوع ہونے والی وہ فجر تھی، جو تعبیر کے چراغ سے منور ہوئی۔ اس سبق میں ہمیں وہ لمحے دکھائی دیتے ہیں جب آزمائش بھی مؤمن کو فضیلت کا جام تھما دیتی ہے، اور خواب، حقیقت کا روپ پہن لیتے ہیں۔

وں حضرت یوسفؑ شاہی قید خانے میں پہنچا دیے گئے، لیکن قید کی دیواریں آپؑ کے وقار اور حلم کی حد بندی نہ بن سکیں۔ وہاں بھی ربِّ ذوالجلال کی رحمت نے سایہ کیے رکھا۔ قید خانے کا نگران آپؑ کی دیانت و وقار کا معترف ہوا، یہاں تک کہ تمام انتظامات حضرت یوسفؑ کے سپرد کر دیے، اور نگران خود سکون و اطمینان کا سانس لینے لگا۔

اسی دوران تقدیر نے ایک نیا پردہ کھولا فرعون کے دربار کے دو خاص خدام، ساقی اور نانبائی، ایک سازش کے الزام میں گرفتار ہو کر اسی قید خانے میں لائے گئے۔ وہیں جہاں صدیق و امین حضرت یوسفؑ قیام فرما تھے۔ رب کی مصلحت، جو ہمیشہ حکمت کے پردے میں جلوہ گر ہوتی ہے، اُنہیں حضرت یوسفؑ کے زیرِ سایہ لے آئی۔

حضرت یوسفؑ ان دونوں کے خدمت گزار مقرر ہوئے، اور دن گزرتے گئے۔

ایک شب، وہ دونوں خواب کی دنیا میں لے جائے گئے ہر ایک نے الگ خواب دیکھا، مگر دونوں دلوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ صبح حضرت یوسفؑ حسبِ معمول ان کے پاس تشریف لائے۔ ان کے چہروں کی پژمردگی دیکھی تو محبت سے پوچھا:

“خیر ہو، آج دل اداس کیوں ہیں؟”

وہ بولے:
“ہم نے خواب دیکھے ہیں، مگر یہاں کوئی تعبیر بتانے والا نہیں!”

حضرت یوسفؑ، جن کے دل میں علمِ ربانی کی روشنی تھی، مسکرا کر بولے:
“تعبیر کا علم صرف اللہ کے پاس ہے، لیکن اگر تم بیان کرو، تو میں وہی کہوں گا جو میرا رب مجھے سکھائے گا۔”

پہلے ساقی نے اپنا خواب بیان کیا:

“میں نے دیکھا ایک انگور کی بیل ہے، اس میں تین شاخیں ہیں، جن پر خوشے اگتے ہیں، میں اُن کا رس نچوڑ کر بادشاہ کو جام پیش کرتا ہوں۔”

حضرت یوسفؑ نے فرمایا:

“یہ تین شاخیں تین دن کی علامت ہیں۔ تیسرے دن تم اپنے منصب پر بحال ہو گے، اور ویسے ہی بادشاہ کو جام پیش کرو گے۔ لیکن جب یہ وقت آئے، تو مجھے یاد رکھنا اور اپنے رب سے میرے لیے رہائی کا ذریعہ بننا۔”

نانبائی نے بھی امید سے اپنا خواب بیان کیا:

“میرے سر پر تین ٹوکریاں ہیں جن میں مختلف نان رکھے ہیں، مگر پرندے اُن روٹیوں کو کھا رہے ہیں۔”

حضرت یوسفؑ نے اس خواب کی سخت مگر سچی تعبیر دی:

“تین دن بعد تمہیں دار پر لٹکایا جائے گا، اور پرندے تمہارا گوشت کھائیں گے۔”

دن گزرے اور پھر وہی ہوا جو فرمایا گیا فرعون کی سالانہ تقریب پر دونوں قیدی دربار میں لائے گئے۔ ساقیؔ کو منصب پر بحال کر دیا گیا، اور نانبائیؔ کو سزائے موت دے دی گئی۔

مگر ساقیؔ، جو وعدہ کر گیا تھا، دربار میں حضرت یوسفؑ کا ذکر کرنا بھول گیا۔


نتائج:

  1. سچائی قید ہو سکتی ہے، لیکن نور کی مانند اُبھرتی ضرور ہے۔
  2. خواب اُس دل کو عطا ہوتے ہیں جو راتوں میں رب کی حضوری میں جھکتا ہو۔
  3. حضرت یوسفؑ نے ہر آزمائش کو علم، صبر اور صداقت سے بدل دیا۔
  4. انسان بھول سکتا ہے، لیکن رب کی حکمت کبھی غافل نہیں ہوتی۔
  5. جن کے دل صاف ہوں، ان کے لبوں سے نکلنے والی تعبیر بھی روشنی بن جاتی ہے۔

اختتامی خیال:

حضرت یوسفؑ کی قید، دراصل ان کے دل کی آزادی کا اعلان تھی۔ وہ زنجیروں میں بھی وہی رہے جو قصر میں ہوتے — وقار، حکمت، بصیرت، اور رب کی رضا کے نمائندہ۔ یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ خواب صرف نیند کے مناظر نہیں ہوتے، بلکہ وہ پیغام ہوتے ہیں، جو کسی درویش کی زبان سے نکل کر تقدیر کی راہوں کا رخ بدل دیتے ہیں۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔