سبق نمبر 4- چوتھے دن کی تخلیق۔ (ازروئے توارۃ شریف) سورج، چاند اور ستارے

 چوتھے دن اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم فرمایا  کُن فَیَکُوْن: آسمان پر نیّر ہوں جو دن کو رات سے جدا کریں اور زمین کو منور کریں اور دنوں برسوں اور تہواروں کا حساب رکھنے کے لئے نشان ہوں۔ سو جو  اللہ تبارک وتعالیٰ  نے آسمان پر نیّر کے بارے میں حکم فرمایا تھا وہ ہی تخلیق ہوگیا۔ اسی طرح  اللہ تبارک وتعالیٰ  نے حکم فرمایا  کُن فَیَکُوْن: دو بڑی روشنیاں تخلیق ہو جائے۔ پہلی روشنی “سورج” جو دن کے اوقات طے کرے اور دوسری روشنی”چاند” جو رات کے اوقات طے کرے۔ سو سورج اور چاند  اللہ تبارک وتعالیٰ  کے حکم سے تخلیق ہوگئے۔ ساتھ ہی  اللہ تبارک وتعالیٰ  نے حکم فرمایا  کُن فَیَکُوْن: ستارے بھی تخلیق ہوں۔ اُن ستاروں کو  اللہ تبارک وتعالیٰ  نے آسمان کی وسعتوں میں جَِڑ دیا۔ سو جو کچھ  اللہ تبارک وتعالیٰ  نے تخلیق فرمایا وہ اُسے بہت پسند آیا۔ یوں مغرب ہوئی اور پھر فجر ہوئی اور چوتھے دن کی تخلیق تمام ہوئی۔

سبق کا خلاصہ

اللہ تبارک وتعالیٰ جس طرح ﴿فَالِقُ الْحُبِّ وَالنُّوَیٰ﴾ ہے اسی طرح ﴿فَالِقُ الْاِصْبَاحِ﴾ بھی ہے۔ اسی نے رات کو سکون کے لیے بنایا اور شمس وقمر کو حساب کے لیے۔ ماہ وسال کا حساب انہی سے ہوتا ہے۔ سورج کے سامنے زمین کا گھومنا، چاند کا اتنے بڑے حجم کے باوجود اور زمین کا اس قدر دوری کے با وجود، سورج کا اتنے بڑے حجم اور حرارت میں اتنا زیادہ گرم ہونے کے باوجود یہ سارے کام کو مل کر انجام دینا اور باشندگان کرۂ ارض کی خدمات ہر وقت اور ہر لمحہ انجام دینا۔ ایک صاحب غلبہ واقتدار اور علیم اللہ کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔ اگر یہ اندازہ اور خدائی حساب نہ ہوتا تو زمین پر یوں زندگی نمودار نہ ہوتی۔ نباتات واشجارنہ پھوٹتے، نور و ظلمت اور حیات وموت کا یوں ظہور نہ ہوتا۔ یہ ایک دقیق ٹھہرایا ہوا، مقرر کردہ حساب ہے جس کے ساتھ یہ کائنات بندھی ہوئی ہے۔ 

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔