نوحؑ کی کشتی—نجات کی تیاری
جب زمین پر انسان ظلم و بربریت میں غرق ہو چکے تھے، اور دلوں کی زمین زرخیزی کھو چکی تھی، تب ربِ قدوس نے اپنے بندۂ خاص حضرت نوحؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا: “اے میرے برگزیدہ نبی! یہ زمین گناہوں سے لبریز ہو چکی ہے، ہر طرف فساد پھیل چکا ہے۔ میرے تخلیق کردہ جانداروں کا وجود اپنی پاک غرض سے ہٹ چکا ہے۔ اب ان کا انجام ہلاکت ہی ہے، اور میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اِن سب پر طوفانِ عدل نازل کیا جائے۔”
حضرت نوحؑ کو حکم ملا: “اپنے ہاتھوں سے نجات کی کشتی تیار کرو۔ سرو کی لکڑی سے ایک بڑی کشتی بناؤ اور اُس پر اندر اور باہر سے گندہ بِر (رال) کا لیپ لگاؤ تاکہ وہ مضبوطی سے پانی کو روک سکے۔ اُس کشتی کی لمبائی 300 ہاتھ، چوڑائی 50 ہاتھ، اور اونچائی 30 ہاتھ ہو۔ اس میں تین منزلیں ہوں، نچلی، درمیانی اور بالائی، اور ایک طرف سے دروازہ بناؤ۔ چھت ایسی ہو کہ ایک ہاتھ باہر کو نکلی ہو تاکہ روشنی داخل ہو سکے۔”
یہ کشتی محض لکڑی اور کیلوں کا مجموعہ نہ تھی، بلکہ ایمان، صبر، اور رب کے وعدے پر یقین کا نشان تھی۔ حضرت نوحؑ نے ایک ایک لکڑی، ایک ایک کیل، اور ہر لیپ اپنے رب کی رضا کے ساتھ لگایا۔ ہر ضربِ کلہاڑا قوم کے لیے ایک تنبیہ تھی کہ نجات کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔
خواجہ حافظ شیرازی فرماتے ہیں:
“عاقلان نقطۂ پرگارِ وجودند ولی،
عشق داند کہ درین دایرہ سرگردان است”
تشریح:
دانشور اپنی عقل سے حق کو سمجھنا چاہتے ہیں، مگر عشق ہی وہ وسیلہ ہے جو فہم سے آگے رب کے رازوں کو پا لیتا ہے۔ حضرت نوحؑ کی اطاعت بھی عشق کی وہی صورت تھی—بے سوال فرمانبرداری۔
نتائج:
- رب تعالیٰ کی طرف سے ظلم کے خلاف عدل کا اعلان ہوتا ہے، مگر اُس عدل میں نجات کی راہ بھی موجود ہوتی ہے۔
- کشتیِ نوحؑ صرف مادی ساخت نہیں، بلکہ توکل، اخلاص اور قربانی کا نشان ہے۔
- حضرت نوحؑ کو الہام کے ذریعے نجات کی تدبیر سکھائی گئی، جو کہ وحی کے تحت عملی اقدام کی تعلیم ہے۔
- کشتی کی تعمیر ہر سچے داعی کے لیے ایک استعارہ ہے—جو مخالفتوں کے باوجود اپنا مشن مکمل کرتا ہے۔
اختتام:
حضرت نوحؑ کی کشتی نجات کا پہلا دروازہ تھی، اور طوفان سے پہلے کا خاموش اعلان تھا۔ آج بھی ہر دور میں فساد سے بچنے کے لیے نوحؑ کی طرح کی اطاعت، اخلاص، اور رب پر ایمان کی ضرورت ہے۔ وہ جو رب کے حکم پر عمل کرتا ہے، وہی نجات پاتا ہے۔ اور وہ جو تکبر اور انکار میں رہتا ہے، وہ طوفان میں غرق ہو جاتا ہے۔
درج ذیل سوالات کے جواب دیں