معجزۂ نیل اور انکارِ فرعون
جب ظلم کی سرکشی اپنے عروج کو پہنچے، اور طاقت کا نشہ دلوں کو سختی میں بدل دے، تب ربِ ذوالجلال کی جانب سے نشانِ قہر ظاہر ہوتا ہے، تاکہ اہلِ باطل پر حجت تمام ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت موسیٰؑ سے ارشاد فرمایا:
“اے میرے برگزیدہ بندے! چونکہ فرعون نے ہدایت کے سب دروازے بند کر لیے ہیں اور میری بار بار کی تنبیہ کو ٹھکرا چکا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ میری قہاریت ظاہر ہو۔ صبح کے وقت جب وہ دریائے نیل پر اشنان کے لیے آئے، تو تم اپنے بھائی ہارونؑ کے ہمراہ وہاں موجود رہو، اور اُسے میرا پیغام سناؤ۔”
فرمانِ الٰہی یوں تھا:
“اے فرعون! ربّ العالمین، وہی جو بنی اسرائیل کا پروردگار ہے، تجھ سے فرماتا ہے کہ میرے بندوں کو رخصت دے تاکہ وہ صحرا میں آکر میری عبادت کریں، مگر تُو نے تکبر کیا اور نافرمانی پر اصرار کیا۔ اب دیکھ! میں اپنی قدرت کو نیل پر ظاہر کروں گا پانی خون میں بدل جائے گا، مچھلیاں مر جائیں گی، بدبو پھیل جائے گی، اور نہ کوئی پی سکے گا، نہ کوئی برداشت کرے گا۔ تب تُو جان لے گا کہ میں ہی ‘القھار’ ہوں۔”
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“اے موسیٰ! اپنے بھائی ہارون سے کہو کہ وہ تمہارے عصا کو دریائے نیل کی جانب بڑھائے۔ جب عصا پانی کو چھوئے گا تو نیل اور اس کی تمام شاخیں، نہریں، تالاب، جھیلیں، حتیٰ کہ گھروں کے برتنوں میں رکھا پانی بھی خون میں بدل جائے گا۔”
اگلے دن، جب فرعون دریائے نیل پر وارد ہوا، تو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ پہلے ہی موجود تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے ربّ کا پیغام فرعون کو سنایا، اور حضرت ہارونؑ نے عصا کو نیل پر مارا۔
اچانک، چشمِ فلک نے وہ منظر دیکھا کہ نیل کا پانی خون میں بدل گیا۔
مچھلیاں بے جان ہو کر تیرنے لگیں، پانی تعفن زدہ ہو گیا، ہر کوزہ، ہر گھاٹ اور ہر نہر سرخی میں ڈھل گئی۔ پورا مصر بدبو، خوف اور حیرت میں ڈوب گیا مگر فرعون کا دل نہ پگھلا۔
فرعون کے درباری جادوگروں نے بھی ظاہری شعبدہ بازی سے کچھ پانی کو خون میں بدل کر دکھایا، مگر وہ صرف دھوکہ تھا۔ وہ نہ مچھلیاں مار سکے، نہ دریا کے جوش کو روک سکے، نہ سچائی کو چھپا سکے۔
فرعون نے اس عظیم معجزے کے بعد بھی انکار کیا، گستاخی سے واپس اپنے محل لوٹ گیا۔
یہ قہر سات دن تک مصر پر طاری رہا، مگر جن کے دل اللہ کی یاد سے خالی ہوں، اُن کے لیے نشان بھی بے اثر ہو جاتے ہیں۔
حضرت خسروؒ
آب بود و شد خون ز حکمِ قہار
دل نلرزد زین کارِ کردگار؟
تشریح:
پانی اللہ کے حکم سے خون میں بدل گیا، مگر جس دل میں نورِ رب نہ ہو، وہ دل قہر کو بھی نظرانداز کر دیتا ہے۔
نتائج:
- معجزات، ظالموں پر اللہ کا قہری انذار ہوتے ہیں۔
- باطل دلائل سے حق کو چھپایا جا سکتا ہے، جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
- سچائی، اگرچہ خاموش ہو، پھر بھی اپنی روشنی دکھاتی ہے۔
- اللہ کا عذاب آتا ضرور ہے دیر ہو سکتی ہے، اندھیری نہیں۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ جب امتیں حق سے منہ موڑ لیں اور حکمران تکبر میں سچائی کو روند ڈالیں، تب اللہ اپنے نبیوں کو نشانِ قہر عطا فرماتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کا عصا، جو رحمت بھی تھا اور قہر بھی، ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی حجت تمام ہو جانے کے بعد کوئی انکار باقی نہیں رہتا صرف انجام باقی رہتا ہے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔