اخراجِ جنت اور وعدۂ نجات
جب انسان یعنی حضرت آدمؑ اور اُن کی زوجہ بی بی حواؓ نے شجرِ ممنوعہ سے پھل کھایا، تو یہ عمل محض ایک نافرمانی نہ تھا بلکہ انسانی آزادیِ ارادہ اور خالق کے درمیان ایک آزمائش کا نقطۂ آغاز تھا۔ ربِ رحیم نے اپنے عدل کے مطابق فیصلہ فرمایا کہ اب انسان کو جنت کی آزمائش سے نکال کر زمین کی دنیا میں بھیجا جائے، تاکہ وہ اپنے عمل، توبہ، قربانی اور اطاعت کے ذریعے دوبارہ اس قرب کو پا سکے جو شجرِ ممنوعہ کے لمس سے کھو گیا۔
اس مقام پر خالقِ ذوالجلال نے اپنے فضل کا ایک جلوہ دکھایا—انسان کو ننگا پا کر اُس کی ستر پوشی خود فرمائی، تاکہ وہ شرم اور حیا کے پردے کو جان لے۔ لباسِ رحمت پہنا کر اُسے تعلیم دی کہ گناہ کے بعد بھی رب مہربان ہے، چھپاتا ہے، سکھاتا ہے اور نجات کی راہ ہموار کرتا ہے۔
پھر عدلِ الٰہی نے فیصلہ فرمایا:
“اب انسان ہماری مانند بن گیا ہے، نیکی و بدی کی تمیز جانتا ہے۔ کہیں وہ شجرِ حیات کا پھل نہ کھا لے اور ہمیشہ زندہ نہ رہ جائے۔”
چنانچہ حضرت آدمؑ اور بی بی حواؓ کو باغِ عدن سے رخصت کیا گیا۔ لیکن یہ نکالا جانا ربّ کی رحمت سے خالی نہ تھا۔ اس میں حکمت تھی، نصیحت تھی، تربیت تھی۔ رب تعالیٰ نے جنت کے مشرقی دروازے پر فرشتے اور گردش کرتی ہوئی تلوار کو متعین فرمایا تاکہ شجرِ حیات تک دوبارہ رسائی اُسی کو ملے جو فدیے کے وسیلے سے آئے، توبہ کے لباس میں لپٹا ہو، اور قربانی کی قیمت جانتا ہو۔
نجات اور فدیے کا وعدہ
جب انسان زمین پر آیا تو گناہ کا بوجھ اُس کے ہمراہ تھا۔ یہ بوجھ نہ صرف ذاتی گناہ تھا بلکہ وہ موروثی گناہ بھی تھا جو عدن میں سرزد ہوا۔ اس گناہ کے سبب دنیا میں ظلم، جبر، قتل، اور فساد کی آگ بھڑک اُٹھی۔ ہر طرف اندھیرے نے بسیرا کیا۔ ایسے میں ربِ کریم نے قربانی کا نظام عطا فرمایا تاکہ انسان گناہ کے احساس سے نکل کر معافی کی جانب بڑھے۔
لیکن جانوروں کی قربانی ایک علامتی نظام تھا۔ یہ مکمل نہ تھا۔ اس میں وہ کمال نہ تھا جو گناہ کو جڑ سے ختم کر سکے۔
تب ربّ قدوس نے وعدہ فرمایا کہ ایک کامل قربانی بھیجی جائے گی۔ ایک ایسی ہستی جو عورت کی نسل سے ہوگی، جو گناہوں کے خلاف ایک نجات دہندہ بن کر آئے گی۔ یہی پہلی پیشگوئی تھی جو عدن کے بعد کی گئی۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی نوید تھی—وہ جو معصوم، بے داغ، اور رب کا کلمہ ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقصد واضح تھا:
تمام انسانوں کے لیے فدیہ بننا، تاکہ عدن میں ٹوٹا ہوا بندگی کا رشتہ دوبارہ جوڑا جا سکے۔
صلیب پر ان کی قربانی عدن کے اُس لمحہ کا جواب تھی جب گناہ نے رب اور انسان کے درمیان پردہ ڈال دیا تھا۔
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:
“از خدا جستن پناہی از خداست، کز خدا ترسیدن اصلِ بندگیست”
ترجمہ: “خدا سے پناہ مانگنا بھی خدا ہی کی جانب رجوع ہے، اور خدا سے ڈرنا بندگی کی اصل ہے۔”
تشریح:
یہ شعر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ انسان گناہ کے بعد جب خدا سے شرماتا ہے، چھپتا ہے، تو یہ خود اس کی روحانی بیداری ہے۔ یہی شرمندگی توبہ کا دروازہ کھولتی ہے، اور نجات کی امید کو روشن کرتی ہے۔
نتائج:
- گناہ کے بعد بھی رب تعالیٰ کی صفتِ ستار نمایاں ہوئی—برہنگی کو لباس سے چھپایا، ندامت کو قبول کیا۔
- عدن سے نکالا جانا سزا سے زیادہ تربیت اور منصوبۂ نجات کا آغاز تھا۔
- قربانی کا نظام انسان کو گناہ کی سنگینی اور نجات کی قیمت سکھانے کے لیے دیا گیا۔
- حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ کامل قربانی ہیں، جنہوں نے صلیب پر جان دے کر فدیے کا وعدہ پورا کیا۔
- مولانا رومیؒ کے مطابق، شرمندگی اور توبہ انسان کو ربّ کی بارگاہ سے جوڑنے کا ذریعہ ہے۔
اختتام:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان کی پہلی لغزش کے بعد بھی خالقِ کائنات نے اُسے تنہا نہیں چھوڑا۔ اُس نے لباس دیا، زمینی مشن دیا، قربانی کا نظام عطا کیا، اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صورت میں وہ کامل قربانی عطا کی جو موروثی گناہ کا کفارہ بنی۔ آج بھی اگر ہم گناہ کی حالت میں ہیں تو وہی رب جو عدن میں توبہ کا در کھولتا تھا، آج بھی ہمیں اپنی رحمت کی آغوش میں پکار رہا ہے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔