نوحؑ کی اطاعت اور طوفان سے قبل کا الٰہی فرمان
جب زمین ظلم و جور سے بھر گئی، جب بندگانِ خاکی نے اپنے رب کی یاد کو فراموش کر دیا، اور انسان نے فطرتِ نوری کو مٹی میں دفن کر کے خواہشات کے اندھیروں میں خود کو گم کر دیا، تب ربِ قدوس نے اپنے برگزیدہ نبی حضرت نوحؑ سے محبت و حکمت بھرے انداز میں کلام فرمایا۔
فرمایا:
“اے میرے بندے نوح! سن لے، وہ وقت قریب ہے جب میں اپنے قہرِ حق سے اس فاسق قوم پر طوفان نازل کروں گا، ایسا طوفان جو زمین کی غفلت کو دھو ڈالے گا۔ تم اپنے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کرو، ایک کشتی جس میں تم، تمہاری زوجہ، تمہارے بیٹے اور بہوئیں محفوظ ہوں گے۔”
پھر مزید ارشاد فرمایا:
“اے نوح! یہ کشتی صرف تمہارے لیے نہیں، بلکہ میری مخلوق کے لیے ایک جائے امان بنے گی۔ ہر اڑنے والا پرندہ، ہر زمین پر چلنے والا جانور، جو جوڑے کی شکل میں ہوں گے، انہیں اپنے ساتھ لے لینا۔ نر و مادہ سب میری رضا سے تمہارے پاس آئیں گے، تم انہیں کشتی میں جگہ دینا۔”
ربِ رحیم نے نہ صرف تحفظ کا حکم دیا بلکہ فرمایا:
“تم اپنے اور ان تمام جانداروں کے لیے مناسب مقدار میں غذا بھی جمع کر لو، تاکہ زندگی کا تسلسل برقرار رہے۔ اور جب یہ آزمائش ختم ہوگی، میں تمہارے ساتھ ان برکات کی تجدید کروں گا جو تخلیق کے آغاز میں میں نے سب مخلوقات کو عطا کی تھیں۔”
حضرت نوحؑ نے اپنے ربِ متعال کے ہر فرمان کو پورے خلوص، کامل وفا اور بے مثال اطاعت سے قبول کیا۔ نہ سوال کیا، نہ تاخیر کی۔ ہر حکم، ہر ہدایت، ہر لفظ کو اپنے دل پر نقش کر کے ویسا ہی عمل کیا جیسا حکم دیا گیا۔ یہی بندگی کا اصل چہرہ ہے، کہ انسان اپنی رائے کو رب کی رضا میں فنا کر دے۔
مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں:
“چوں نبی از بحر حکمت ناخداست،
کشتیِ خلق از بلا محفوظ راست”
تشریح:
جب کوئی نبی، حکمت کے سمندر کا ناخدا بن جائے، تو خلقِ خدا کی کشتی طوفانوں میں بھی محفوظ رہتی ہے۔ حضرت نوحؑ کی اطاعت ہی وہ راستہ تھی جس نے نوعِ انسان کو فنا سے بچایا، اور فطرت کو از سر نو جینے کا موقع دیا۔
نتائج:
- اللہ تعالیٰ کا فیصلہ عدل اور حکمت پر مبنی ہوتا ہے، مگر وہ اپنے نبی کو پہلے سے تیار کرتا ہے۔
- حضرت نوحؑ کی مکمل اطاعت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سچوں کو خدا خود راہ دکھاتا ہے۔
- کشتی کی تیاری، جانداروں کو سمیٹنا، خوراک کا ذخیرہ، سب نظم و تدبیر اور عمل کی تعلیم دیتے ہیں۔
- طوفان سے پہلے نجات کی سبیل دینِ حق کی شانِ رحمت ہے۔
- ایک نبی کی اطاعت، قوم کی نئی زندگی کی بنیاد بن سکتی ہے۔
اختتام:
یہ سبق ہمیں نہ صرف حضرت نوحؑ کی بصیرت اور اطاعت کا آئینہ دکھاتا ہے، بلکہ ایک پیغام بھی دیتا ہے کہ جب دنیا ظلم سے بھر جائے، تو ایک کشتیِ نجات ہمیشہ تیار کی جاتی ہے۔ یہ کشتی اطاعت، صبر، حکمت، اور رب پر توکل سے تعمیر ہوتی ہے۔ اور جو اُس میں سوار ہو جائے، وہی طوفانِ بلا سے محفوظ رہتا ہے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔