خوابِ فرعون اور نورِ تعبیر: حضرت یوسفؑ کی طلب
جب قید خانہ کسی عارف کے قدموں سے مہکنے لگے، تو سمجھ لیجیے وقتِ الٰہی قریب ہے۔ رب کی تقدیر جب بولنے لگے تو نہ دربار کی دیواریں رُک سکتی ہیں، نہ وقت کی تاخیر۔ حضرت یوسفؑ کی زندگی کا یہ مرحلہ محض ایک شاہی خواب کی تعبیر نہیں، بلکہ حق کے ظہور کا وہ لمحہ ہے جب مخلصوں کو آزمائش سے نکال کر سرفرازی عطا کی جاتی ہے۔ خواب، ایک خاموش اشارہ ہے جو رب کی طرف سے آتا ہے، اور صرف اُس کے برگزیدہ بندے اس کی صدا سن سکتے ہیں۔
دو برس گزر چکے تھے۔ قید کا صبر، خامشی کا نغمہ، اور دعا کی مہک حضرت یوسفؑ کے گردوپیش گواہی دے رہی تھی کہ وہ جسے دنیا نے بھلا دیا، اسے رب نے یاد رکھا ہے۔
اسی دوران مصر کے تاجدار، فرعون نے رات کی تنہائی میں ایک حیران کن خواب دیکھا۔
اس نے خود کو دریائے نیل کے کنارے کھڑا پایا۔ پانی کی روانی میں سے سات فربہ، خوبصورت گائیں نکلیں اور کنارے کی گھاس چرنے لگیں۔ ابھی یہ منظر جاری تھا کہ سات اور گائیں نمودار ہوئیں — دبلی، بدشکل، اور بھوک زدہ۔ وہ موٹی گایوں کے قریب آئیں اور یکایک اُنہیں نگل گئیں۔ خواب میں خاموشی ٹوٹ گئی، اور فرعون جاگ اٹھا — حیرت و خوف میں ڈوبا ہوا۔
چند ساعتوں بعد نیند دوبارہ آنکھوں میں اتری اور ایک اور خواب لے کر آئی۔
اب کی بار ایک بالی پر سات بھرپور خوشے نکلے۔ اُن کے بعد سات اور خوشے نکلے — سوکھے، جھلسے ہوئے، صحرائی آندھی سے کمزور۔ اور وہ سوکھے خوشے، بھرے ہوئے خوشوں کو نگل گئے۔
فرعون پھر سے جاگ اٹھا — اور اس بار دل میں یقین تھا کہ یہ فقط خواب نہیں، بلکہ کوئی الٰہی راز ہے۔
صبح ہوتے ہی حکم جاری ہوا:
تمام مبیِّن، عارف، دانا اور خواب شناس دربار میں حاضر کیے جائیں۔ جب وہ سب جمع ہوئے، فرعون نے دونوں خواب سنائے — مگر کوئی اُن خوابوں کی تعبیر نہ دے سکا۔ دانش چپ رہی، فلسفہ تھم گیا، اور علم خاموش ہو گیا — کیونکہ علم جب وحی سے جُدا ہو، تو وہ صرف تجزیہ رہ جاتا ہے، بصیرت نہیں۔
ایسے میں ساقی سامنے بڑھا، جس کا دل اس نوجوان قیدی کی بصیرت سے آج بھی روشن تھا۔ اُس نے مؤدبانہ عرض کی:
“اے بادشاہِ وقت، اگر اجازت ہو تو میں ایک بات عرض کروں؟”
فرعون نے فرمایا: “کہو۔”
ساقی نے عرض کیا:
“جب میں اور شاہی نانبائی قید خانے میں تھے، ہم نے دو عجیب خواب دیکھے۔ ایک عبرانی نوجوان جو قید خانے میں نگرانوں کی مدد کرتا تھا، اُس نے دونوں خوابوں کی تعبیر دی — اور وہ تعبیر عین سچ نکلی۔ مجھے عہدہ واپس ملا، اور نانبائی اپنے انجام کو پہنچا۔”
یہ سن کر فرعون کی نگاہوں میں حیرت اور دل میں تجسس جاگا۔
رب نے دل میں ڈال دیا کہ اب اُس کے دربار کو وہ روشنی درکار ہے جو قید کی دیواروں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔
فرمان جاری ہوا: “اس نوجوان کو فوراً دربار میں پیش کیا جائے!”
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں
چو تقدیرِ خدا خواهد، شود آسان ہر مشکل
کہ از یک خواب گردد باز، درِ دولت به تأویلش
تشریح:
جب اللہ کی مشیت شامل ہو، تو بڑی سے بڑی مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
ایک خواب، اگر الہامی ہو، تو اُس کی سچی تعبیر تقدیر کے بند دروازے کھول سکتی ہے جیسے حضرت یوسفؑ کی تعبیر نے قید سے عزت تک کا در وا کر دیا۔
نتائج:
- جب بندہ صبر کے ساتھ قید کو عبادت بنا لے، تو رب اسے ملوک کے دل میں ڈال دیتا ہے۔
- خواب اگر وحی کی خوشبو لیے ہو، تو اُس کی تعبیر محض علم سے نہیں، نور سے حاصل ہوتی ہے۔
- بندہ جب رب پر توکل کرتا ہے، تو لوگ اُسے چاہے بھول جائیں، رب خود اُسے یاد دلوا دیتا ہے۔
- دنیا کے دربار جب عاجز ہو جائیں، تو رب کا بندہ ہی جواب ہوتا ہے۔
- آزمائش جتنی طویل ہو، انعام اُتنا ہی عظیم ہوتا ہے۔
اختتامی خیال:
قید کا کمرہ، آج ایک درِ سلطنت بننے جا رہا تھا۔ حضرت یوسفؑ، جنہیں بھائیوں نے بیچا، جنہیں مصر نے قید کیا، اب وہی یوسفؑ شاہی دربار کا مہمان بننے والے تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب انسان کی خاموشی، رب کی گواہی بن جاتی ہے۔ رب نے خواب بھیجا، تعبیر روکی، اور پھر اُس بندے کو یاد دلایا جس کے دل میں نور، لب پر ذکر، اور آنکھ میں یقین تھا۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔