زمین پر نئی ابتدا
جب زمین پر طوفان کی لہریں تھم گئیں، آسمان پر چھائے بادل چھٹ گئے، اور ہواؤں نے سجدۂ سکون کیا، تب خالقِ ارض و سما نے اپنے نبی حضرت نوحؑ سے نہایت شفقت آمیز لہجے میں فرمایا:
“اے میرے بندے نوح! اب اپنی بیوی، اپنے بیٹوں اور اپنی بہوؤں کے ساتھ کشتی سے باہر تشریف لے آؤ، اور ان تمام جانداروں کو بھی نکال دو جو تیرے ساتھ میری پناہ میں محفوظ رہے۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب آفت کے بعد زندگی کی گھڑی دوبارہ چلی، جب فنا کے بعد بقا کی نوید سنائی دی۔ حضرت نوحؑ نے نہ کوئی سوال کیا، نہ کوئی توقف—وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کشتی سے باہر تشریف لائے، اور اُن کے ساتھ ہی تمام اڑنے والے پرندے، رینگنے والے جانور، اور زمین پر چلنے والی ہر ذی نفس مخلوق نئی امید کے ساتھ اس زمین پر اتری۔
زمین، جو کل تک طوفان کی غضب ناک لہروں کے زیرِ اثر تھی، اب زندگی، ہریالی اور نسلوں کی تعمیر کا میدان بن چکی تھی۔ یہ وہی زمین تھی جو گناہوں سے بھر گئی تھی، اور اب نبی کی اطاعت سے ایک نیا آغاز پا رہی تھی۔ حضرت نوحؑ، جنہوں نے رب کی رضا کے سوا کچھ نہ چاہا، وہ اب نسلِ انسانی کے نئے باپ اور ہدایت کے علمبردار بن چکے تھے۔
: خاقانی شروانی
“فلک گر قہر راند روزگاری
ز بعدِ قہر بخشد نو بہاری”
تشریح:
خاقانی شروانی اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جب آسمان قہر نازل کرتا ہے، تو وہ محض تباہی کے لیے نہیں، بلکہ ایک نئی بہار، نئی روشنی، اور پاکیزہ آغاز کے لیے بھی زمین کو تیار کرتا ہے۔ طوفان کے بعد جو بچتے ہیں، وہ محض بچنے والے نہیں، بلکہ وہی نئے دور کے معمار ہوتے ہیں۔
نتائج:
- ربّ کریم کا ہر فیصلہ محض سزا نہیں، بلکہ ایک تربیت اور نئی ابتدا کا دروازہ ہوتا ہے۔
- حضرت نوحؑ کی مکمل اطاعت اور صبر اُن کی نجات کا ذریعہ بنی۔
- زندگی کا تسلسل صرف نسلوں سے نہیں، بلکہ اطاعت، تدبیر اور توکل سے ممکن ہوتا ہے۔
- نئی نسل کی بنیاد پاکیزہ اطاعت، ربّ پر ایمان، اور تقویٰ پر رکھی گئی۔
- کشتی سے باہر آنا صرف جسمانی سفر نہیں تھا، بلکہ ایک عہد تھا—کہ اب یہ زمین خدا کے حکم سے عدل، رحم، اور حق کی گواہی دے گی۔
اختتام:
یہ سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نجات صرف عذاب سے بچنے کا نام نہیں، بلکہ اس کے بعد رب کے حکم سے زمین پر دوبارہ ہدایت کا چراغ جلانا بھی ہے۔
حضرت نوحؑ نے کشتی سے باہر آکر وہ قدم رکھا جو قیامت تک نسلوں کی ہدایت کا مرکز بن گیا۔ کشتیِ نجات صرف لکڑی کی نہیں تھی، بلکہ ایک عظیم پیغام تھی کہ جو رب سے جُڑا رہے، وہ طوفانوں سے نکل کر بہاروں کا استقبال کرتا ہے۔
مندرجہ ذیل سوال کا جواب دیں۔