اندھیرے کی آفت اور آخری تنبیہ

جب زمین پر ظلم حد سے گزر جائے، اور قلوب عبرت کے بجائے غرور میں بند ہو جائیں، تب ربّ ذوالجلال اپنی حجت کو ایسی شکل میں ظاہر فرماتا ہے جو نہ صرف آنکھوں کو بلکہ دلوں کو بھی جھنجھوڑ ڈالتی ہے۔

فرعون کے مسلسل انکار اور وعدہ خلافی کے بعد، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے کلام فرمایا:
“اے موسیٰ! اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرو تاکہ پورے مصر پر ایسا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا جائے کہ انسان اپنے ہاتھ کو بھی دیکھ نہ سکے۔”

حضرت موسیٰؑ نے اپنے ربّ کے فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے جیسے ہی ہاتھ بلند کیا، مصر کی سرزمین پر ظلمت کے پردے چھا گئے۔ دن رات کا فرق مٹ گیا، ہر طرف اندھیرا چھا گیا، اور تین دن تک وہ ظلمت ایسی تھی کہ لوگ اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر دیواروں سے ٹکرا کر چلنے لگے۔ لیکن اسی مصر میں، وادئ طوملات میں جہاں بنی اسرائیل آباد تھے، وہاں روشنی بدستور قائم تھی۔ کیونکہ وہاں ایمان تھا، ربّ پر یقین تھا، اور وہ حق کی پناہ میں تھے۔

اس آفت کے بعد فرعون نے حضرت موسیٰؑ کو دربار میں بلایا اور کہا:
“جاؤ! اپنے ربّ کی عبادت کرو، اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے جاؤ، مگر اپنے مویشی یہیں چھوڑ جاؤ!”

حضرت موسیٰؑ نے حکمت و وقار سے فرمایا:
“اگر ہم اپنے جانور یہیں چھوڑ جائیں تو قربانی کے لیے جانور کہاں سے لائیں گے؟ اور ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کون سا جانور وہاں جا کر قربانی کے قابل ہوگا اور کون سا نہیں۔ ہم اپنے تمام مویشی ساتھ لے کر جائیں گے، اور ان میں سے کسی کا کُھر بھی یہیں نہ چھوڑیں گے۔”

یہ سن کر فرعون کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا، اس نے تکبر سے پھنکارتے ہوئے کہا:
“جاؤ موسیٰ! اور دوبارہ میرے سامنے مت آنا! بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت میں کبھی نہیں دوں گا!”

حضرت موسیٰؑ نے سکون سے لیکن جلال بھرے لہجے میں فرمایا:
“سن لے فرعون! بنی اسرائیل کا ربّ فرماتا ہے کہ آدھی رات کو قہر نازل ہوگا، اور پورے مصر میں ہر پہلوٹھا مارا جائے گا فرعون کے ولی عہد سے لے کر چکی پیسنے والی لونڈی تک، حتیٰ کہ جانوروں کے پہلے بچے بھی نہیں بچیں گے۔ مصر میں ایسا ماتم ہوگا کہ اس جیسا نہ پہلے کبھی ہوا، نہ آئندہ کبھی ہوگا۔”

لیکن حضرت موسیٰؑ نے ساتھ ہی فرمایا:
“وادئ طوملات میں بنی اسرائیل کو ایسی سلامتی حاصل ہوگی کہ وہاں کوئی کتا بھی نہ بھونکے گا تاکہ تم جان لو کہ اللہ اپنے بندوں میں امتیاز فرمانے والا ہے۔”

حضرت موسیٰؑ نے پیش گوئی کرتے ہوئے فرمایا:
“فرعون! وہ وقت آئے گا جب تمہارے درباری میرے قدموں میں آ کر التجا کریں گے: ’حضور! اپنے لوگوں کو لے کر یہاں سے تشریف لے جائیے‘ اور تب میں مصر سے نکلوں گا۔”

یہ فرما کر حضرت موسیٰؑ غصے سے دربار سے باہر تشریف لے گئے۔

ابھی اندھیرے کی آفت ختم نہ ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا:
“اب آخری معجزہ ظاہر ہونے والا ہے اس کے بعد فرعون نہ صرف تمہیں جانے دے گا بلکہ خود تمہیں روانہ کرے گا۔ بنی اسرائیل کے مردوں اور عورتوں سے کہو کہ اپنے مصری ہمسایوں سے سونے اور چاندی کے زیورات مانگ کر اپنے پاس رکھ لیں۔”

اور یوں ہوا۔ مصریوں کے دل پہلے ہی نرم پڑ چکے تھے۔ وہ بنی اسرائیل کو نہ صرف زیور دے رہے تھے بلکہ حضرت موسیٰؑ کو عزت اور عظمت کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ لیکن فرعون، جو بار بار نشانیاں دیکھ چکا تھا، پھر بھی انکار کی دیوار سے ٹیک لگائے رہا۔


حضرت بیدلؒ

نورِ حق بر دلِ تاریک نتابد ہرگز
آنکہ از خود نہ برآمد، ز خدا واں نشود

تشریح:
“حق کا نور اس دل پر نہیں چمکتا جو اپنی ضد، غرور اور انانیت میں ڈوبا ہو۔ جو خود اپنے باطن کی قید سے آزاد نہ ہو، وہ ربّ کی پہچان کیسے پا سکتا ہے؟”


نتائج:

  1. اللہ تعالیٰ کی قدرت ایسی ہے کہ ظلمت بھی اس کے حکم سے پیغامِ حق بن جاتی ہے۔
  2. جو ایمان پر ثابت قدم رہے، وہ ظلم کی راتوں میں بھی روشنی میں رہتے ہیں۔
  3. فرعون کی ہٹ دھرمی انسان کو آخری درجے کی تباہی تک لے جاتی ہے۔
  4. بنی اسرائیل کی سلامتی، اللہ کے وعدے کی سچائی کی دلیل ہے۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم ظلمت کی گرفت میں آنے سے پہلے، ہدایت کی روشنی میں اپنے دل کو جھکا دیں۔ حضرت موسیٰؑ کا وقار، اللہ کا قہر، اور بنی اسرائیل کی نجات یہ سب مل کر گواہی دیتے ہیں کہ خدا کی بات کو جھٹلانے والے آخرکار پچھتاتے ہیں، اور اہلِ یقین ربّ کے وعدے سے سرخرو ہوتے ہیں۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔