مینڈکوں کی آفت اور فرعون کی ہٹ دھرمی

جب دل حق کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیں، اور نشانیاں بار بار ظاہر ہو کر بھی غرور میں دفن کر دی جائیں، تو ربّ العالمین اپنی نشانیوں کو مزید نمایاں فرماتا ہے تاکہ باطل کے ایوان لرزیں اور سچائی کی صدا دور دور تک پہنچے۔

اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے خطاب فرمایا: “اے موسیٰ! پھر فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ربِ کائنات فرماتا ہے: بنی اسرائیل کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں آ کر میری عبادت کریں۔ اگر تو انکار پر اصرار کرتا ہے، تو سن لے! میں تیرے ملک کو مینڈکوں سے بھر دوں گا۔”

پھر ارشاد ہوا: “یہ مینڈک محض دریا تک محدود نہ ہوں گے، بلکہ تیرے محل، تیرے بستر، تیری خوابگاہوں، تیرے آتش دانوں، یہاں تک کہ تمہارے آٹے کے برتنوں میں بھی بھر جائیں گے۔ تم، تمہارے درباری، اور رعایا ہر وقت ان سے چھٹکارے کی کوشش میں رہو گے، مگر وہ ہر جگہ موجود ہوں گے۔”

فرعون نے حسبِ معمول انکار کیا، اور نافرمانی کی وہی ضد دہراتا رہا۔

تب حضرت موسیٰؑ کو حکم ہوا: “اے موسیٰ! اپنے بھائی ہارونؑ سے کہو کہ وہ اپنا عصا دریائے نیل کی طرف بڑھائے تاکہ میری قدرت ظاہر ہو۔”

چنانچہ حضرت ہارونؑ نے جب عصا سے اشارہ کیا، تو زمین پر مینڈک اُبل پڑے دریا، تالاب، راستے، بازار، محل، عبادت گاہ، گھر کوئی جگہ محفوظ نہ رہی۔ ہر طرف مینڈکوں کی بھرمار تھی۔

فرعون کے جادوگروں نے بھی اپنے شعبدوں سے چند مینڈک ظاہر کیے، مگر وہ محض ظاہری نمائش تھی۔ وہ اس طوفان کو نہ روک سکے، نہ سمجھا سکے۔ قہرِ الٰہی کا عالم ایسا تھا کہ مصر کی سانسیں بند ہونے لگیں۔

تب فرعون نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کو بلوا بھیجا اور عاجزی سے التجا کی: “اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمیں اس آفت سے نجات دے دو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری قوم کو اجازت دوں گا کہ وہ بیابان میں جا کر قربانیاں پیش کرے۔”

حضرت موسیٰؑ نے فرمایا: “تم خود وقت معین کر لو، کب چاہو دعا کی جائے؟”

فرعون نے کہا: “جتنی جلد ممکن ہو، بس ہمیں اس مصیبت سے نکالو۔”

حضرت موسیٰؑ نے فرمایا: “اچھا، میں دعا کروں گا، تمہارا محل، رعایا، دربار سب مینڈکوں سے پاک ہو جائیں گے۔ صرف دریائے نیل میں مینڈک باقی رہیں گے اور تب تم جان لو گے کہ ربِ ذوالجلال کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔”

پھر حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی۔ دعا قبول ہوئی۔ زمین پر پڑے تمام مینڈک مر گئے۔ مگر ان کی لاشوں سے ایسی بدبو اٹھی کہ سارا مصر متعفن ہو گیا۔ ہر گلی، ہر کوچہ، ہر گھر گواہی دے رہا تھا کہ یہ اللّٰہ ربّ العزت کا قہر ہے۔

مگر افسوس! فرعون نے جب دیکھا کہ آفت ٹل گئی ہے، تو وہ پھر اپنی سرکشی پر قائم ہو گیا۔ اس نے اپنے وعدے سے رجوع کر لیا، اور بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت نہ دی۔


حضرت بیدلؒ

از کبر فرعون، صد نشان آمد ہر بار، خدا ز دل بیان آمد

تشریح:
“فرعون کا تکبر صد بار ٹوٹنے کو آیا، مگر ہر بار اس کا دل ضد پر قائم رہا۔ حالانکہ رب کی نشانی ہر بار اس کے دل کے سامنے جلوہ گر ہوئی۔”


نتائج:

  1. قہرِ الٰہی کی نشانیاں دلوں کو لرزانے کے لیے آتی ہیں، نہ کہ فقط آنکھوں کو متحیر کرنے کے لیے۔
  2. اگر دل جھکنے کو تیار نہ ہو، تو معجزہ بھی محض نظارہ بن جاتا ہے۔
  3. وعدہ خلافی، وہ صفت ہے جو حق کے منکروں کی پہچان ہے۔
  4. قہر کے بعد جو بدبو پھیلتی ہے، وہ صرف لاشوں کی نہیں بلکہ جھوٹے ارادوں کی گواہی بھی دیتی ہے۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کی نشانی محض نظر کی آزمائش نہیں ہوتی بلکہ دل کی بیداری کا پیغام ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے سچ کہا، دعا کی، معجزہ ہوا، اور رب نے اپنا وعدہ نبھایا مگر جس کا دل بند ہو، وہ ہر بار حق کو جھٹلا دیتا ہے۔ یہی فرعون کا حال تھا، اور یہی ہر زمانے کے انکار کرنے والوں کی کہانی ہے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔