عہدِ وصال: حضرت یوسفؑ کی مغفرت، وصیت اور الوداعی فرمان
جب صدیوں پر محیط ایک نورانی داستان اپنے آخری باب کو چھونے لگے، تو اس کے الفاظ آہوں سے مہکتے ہیں اور اس کی سطریں سجدوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ حضرت یوسفؑ، جن کی زندگی خواب سے حقیقت، قید سے عزت، اور فراق سے وصال تک کا عظیم الشان سفر رہی اب اُس لمحۂِ وداع کے قریب تھے جہاں سچائی خامشی سے اپنا دامن لپیٹتی ہے اور حکمت سراپا دعا بن جاتی ہے۔
حضرت یعقوبؑ کی تدفین کے بعد حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کے دل لرزنے لگے۔ وہ سوچنے لگے کہ اب ہمارے سروں پر وہ سائے دار درخت نہیں رہا جس کی دعاؤں نے ہمیں بخشش کے سائے میں رکھا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یوسفؑ، اب ہمارا محاسبہ کرے، اُس دردناک ستم کا جو ہم نے اُس کے ساتھ روا رکھا۔
اس اندیشے کے تحت وہ حضرت یوسفؑ کو ایک عاجزانہ پیغام بھجواتے ہیں:
“ہمارے والد محترم، جو اب رحمتِ حق میں جا چکے ہیں، ہمیں آپ سے یہ وصیت کر گئے کہ اگرچہ ہم خطاکار ہیں، مگر آپ اپنے درگزر سے ہمیں معاف فرما دیں۔ ہماری خطاؤں کو ماضی کا غبار جان کر بھلا دیجیے۔ ہم وہی بندے ہیں جو آپ کے والد کی مانند ربِّ کریم کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔”
یہ الفاظ حضرت یوسفؑ کے دل پر جیسے صبر کی چوٹ بن کر اترے۔ آنکھیں نم ہوئیں، دل دہلا، اور زبان پر خامشی چھا گئی۔ پھر جب وہ سامنے آئے، تو بھائی ان کے قدموں میں گر پڑے، زار زار روئے اور کہا:
“اے ہمارے آقا! ہم آپ کے خادم ہیں، آپ کے رحم و کرم پر۔”
تب حضرت یوسفؑ، جن کی سیرت میں حلم تھا، جن کے دل میں نورِ نبوت تھا، آہستہ سے گویا ہوئے:
“ڈر مت، میں تمہارے خلاف کوئی حکم نہیں چلاتا، میں رب نہیں ہوں، بندہ ہوں اور بندے کا کام معاف کرنا ہے۔ تم نے میرے ساتھ برائی کا ارادہ کیا، مگر میرے پروردگار نے اسی میں خیر پیدا کر دی۔ اُس نے مجھے یہاں بھیجا تاکہ میں لوگوں کی زندگی بچا سکوں، تاکہ تمہاری نسل محفوظ رہے۔ تو ڈرو مت، میں تمہارا بھی کفیل ہوں، تمہارے بچوں کا بھی۔”
یوسفؑ کی یہ بشارت، یہ درگزر، یہ مغفرت، ایک ایسی روشنی تھی جو بھائیوں کے دلوں پر ہمیشہ کے لیے اتر گئی۔
وقت گزرتا رہا۔ حضرت یوسفؑ نے ایک سو دس برس کی عمر پائی۔ اُنہوں نے افرائیمؑ کی اولاد کی تیسری نسل تک اپنے سامنے دیکھی۔ وہ اپنے پوتوں کو گود میں اٹھا کر شفقت فرماتے اور اُنہیں یوں عزیز رکھتے جیسے اپنی روح کا ٹکڑا ہوں۔
پھر ایک دن، جب وصال کی گھڑی قریب ہوئی، حضرت یوسفؑ نے اپنے اہلِ بیت کو بلایا اور فرمایا:
“اب میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والا ہوں، لیکن تمہیں اللہ تعالیٰ کبھی تنہا نہ چھوڑے گا۔ وہ تمہیں اُس سرزمین کی طرف واپس لے جائے گا جس کا وعدہ اُس نے ہمارے جد امجد حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ اور حضرت یعقوبؑ سے فرمایا ہے۔”
پھر اُنہوں نے بنی اسرائیل سے قسم لی:
“جب تم اُس وعدہ شدہ سرزمین کو پاؤ، تو میرے جسدِ خاکی کو بھی اپنے ساتھ لے جانا۔ مجھے اسی سرزمین میں دفن کرنا، جہاں میرے آباؤ اجداد خوابوں کے سائے میں سو رہے ہیں۔”
یوں حضرت یوسفؑ نے وصال فرمایا۔ آپ کا مبارک جسم حنوط کر کے ایک نہایت قیمتی تابوت میں رکھ دیا گیا، اور وہ تابوت ایک امانت کی صورت مصر میں محفوظ رکھا گیا تاکہ وہ دن آئے جب ایک قوم واپسی کی بشارت لیے، اپنے نبی کو بھی ساتھ لے کر چلے۔
حضرت جامیؒ
دلِ عارف چو گُل باشد ز وصالش خموش
لب نہ گوید، ز دل آید صدایِ یاہو
تشریح: جامیؒ فرماتے ہیں کہ عارف کا دل اُس وقت بھی خوشبو دیتا ہے جب اُس کی زبان خاموش ہو کیونکہ اُس کی خامشی بھی ذکرِ الٰہی ہوتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کی زندگی، اور اُن کا وصال، اسی خامشی کی صدا ہے جو آج بھی قلوب کو جگاتی ہے۔
نتائج:
- درگزر، صرف بندے کی خوبی نہیں، نبی کی نشانی ہے۔
- جب سچائی، رحم، اور حکمت اکٹھے ہوں، تو زمانہ اُنہیں یاد رکھتا ہے۔
- وصیت وہ امانت ہے جو نسلوں کو خواب سے بیداری عطا کرتی ہے۔
- نبی کی رخصت بھی بشارت کا آغاز ہوتی ہے، انجام نہیں۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ معافی میں قوت ہے، اور وصیت میں بصیرت۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو معاف کیا، اُنہیں سمیٹا، اور وصیت کے ذریعے آنے والی نسلوں کو راستہ دکھایا۔ یہی ہے نبوت کی شان حلم، مغفرت، اور وہ وعدہ جو صدیوں بعد بھی نور بن کر ابھرتا ہے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔