کشتیِ نجات اور طوفانِ تطہیر

جب زمین فتنہ و فساد سے بھر گئی، جب ہر جانب ظلم، بے حیائی اور انکارِ حق کی گونج بلند ہونے لگی، تب عرش کے مالک، خالقِ مطلق نے اپنے برگزیدہ نبی حضرت نوحؑ سے نرمی اور حکمت سے فرمایا:
“اے نوح! تو ان سب کے درمیان میرا چنا ہوا نیک بندہ ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ حق کے سچّے محافظوں کو فتنوں سے جدا کر دیا جائے۔”

ربِ کریم نے فرمایا:
“اپنے اہلِ بیت کو لے کر کشتی میں سوار ہو جاؤ، اور میرے حکم کے مطابق، ہر قسم کے پرندوں اور پاک جانوروں میں سے سات سات جوڑے اور ناپاک جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا اپنے ساتھ لے لو، تاکہ نسلیں محفوظ رہیں، تاکہ طہارت اور حکمت کا سلسلہ باقی رہے۔”

پھر ربِ عزّوجل نے اعلان فرمایا:
“آج سے سات دن کے بعد، میں آسمان کے دہانے کھول دوں گا، زمین کو رُلا دوں گا، اور چالیس دن چالیس رات، مسلسل ایسی بارش نازل ہوگی جو زمین کو دھو ڈالے گی، یہاں تک کہ سوائے اُن کے جنہیں کشتیِ نجات نے پناہ دی ہو، کوئی باقی نہ بچے گا۔”

حضرت نوحؑ، جن کے دل میں نہ شک تھا، نہ توقف، نے ہر ہدایت پر کامل اطاعت سے عمل کیا۔ وہ کشتی جسے اہلِ زمین مذاق کا نشانہ بناتے رہے، اب خود ان کے لئے موت کی ایک گہری تمثیل بننے والی تھی۔ نوحؑ نے کشتی کو آباد کیا، جانداروں کو ترتیب سے سوار کیا، اہلِ ایمان کو جمع کیا، اور اُس کشتی کو، جو اطاعت کا استعارہ تھی، طوفان کے استقبال کے لیے تیار کر دیا۔

شیخ فرید الدین عطار نیشاپوریؒ

“در طوف چو نوح باش و مشو غرقهٔ نفس،
هر جا سفینهٔ حق بود، ایمن شوی ز طوفان!”

تشریح:

اے سالکِ راہِ حق! جب زمانہ طوفانِ بلا سے لرز رہا ہو، اور ہر طرف ضلالت کی موجیں اٹھ رہی ہوں، تو نوحؑ کی مانند استقامت اختیار کر۔ اگر تُو نفس کی خواہشات کا شکار ہوا، تو اسی طوفان میں غرق ہو جائے گا۔ لیکن اگر تُو حق کی کشتی میں سوار ہو جائے، تو بے شک ہر فتنہ و آزمائش سے محفوظ رہے گا۔

یہ شعر حضرت نوحؑ کی کشتی کو “حق کی علامت” قرار دیتا ہے اور طوفان کو انکارِ حق، فتنہ، اور ظلم کی تمثیل کے طور پر بیان کرتا ہے۔

نتائج:

  1. حضرت نوحؑ کی اطاعت ہمیں سکھاتی ہے کہ سچے بندے وہی ہیں جو بندگی کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔
  2. کشتی، فتنوں سے بچاؤ کی علامت ہے، جو ربّ کی طرف سے صرف اہلِ حق کے لیے تیار کی جاتی ہے۔
  3. جانداروں کی نسل کی حفاظت سے ربّ کی رحمت کا پہلو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فنا میں بھی بقا کے در کھولتا ہے۔
  4. چالیس دنوں کی بارش، زمین کے باطن کی تطہیر تھی، اور نوحؑ کا کردار اس طوفان میں ثبات اور یقین کی مشعل۔

اختتام:

یہ سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب دنیا بگاڑ کی طرف بڑھتی ہے، ربِ ذوالجلال ایک نوح بھیجتا ہے۔ وہ نوح جو اطاعت میں کامل، زبان میں سچ، اور عمل میں استقامت کا مظہر ہوتا ہے۔
کشتی صرف لکڑی کی بناوٹ نہ تھی، بلکہ ایک پیغام تھی — کہ جو رب کی بات مانتا ہے، وہ طوفان میں بھی سلامت رہتا ہے، اور جو انکار کرتا ہے، وہ سکون میں بھی غرق ہو جاتا ہے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔