عیدِ فسح نجات کا وعدہ اور قربانی کی علامت
جب قہرِ خداوندی زمین پر نازل ہونے کو ہوتا ہے تو رحمتِ الٰہی اہلِ وفا کو اس سے قبل نجات کا نشان عطا فرماتی ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ربّ کریم نے حضرت موسیٰؑ سے کلام فرمایا اور اُن کے ذریعے بنی اسرائیل کو نجات کی تیاری کا پیغام دیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“اے موسیٰ! بنی اسرائیل کو میرا فرمان پہنچا دو۔ ہر خاندان کا سربراہ اپنی جانب سے ایک یک سالہ نر برّہ قربانی کے لیے چن لے۔ اگر کوئی برّہ ایک خاندان کے لیے زیادہ ہو تو وہ اپنے ہمسایہ خاندان کے ساتھ شریک ہو کر قربانی کرے۔ وہ جانور بے عیب ہو اور خوب دیکھ بھال کے بعد شام کے وقت ذبح کیا جائے۔”
ذبح کے بعد، ربّ تعالیٰ کا حکم تھا کہ:
“جانور کے خون کو کسی برتن میں جمع کرو اور برگِ بانسہ کے گچھے کی مدد سے وہ خون اپنے گھر کی چوکھٹ پر، دونوں طرف اور اوپر، چھڑک دو۔ قربانی کے گوشت کو سالم، آگ پر بھونا جائے نہ کچا ہو اور نہ پانی میں پکا ہوا۔ اسے کڑوی جڑی بوٹیوں اور بے خمیری روٹی کے ساتھ کھایا جائے۔ جو کچھ بچ جائے، سورج طلوع ہونے سے پہلے جلا دیا جائے۔”
اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:
“کھانے کے وقت تمہاری کمر بندھی ہو، جوتے پاؤں میں ہوں، عصا ہاتھ میں ہو اور کھانے کی رفتار تیز ہو، کیونکہ یہ نجات کی رات ہے۔”
اس رات موت کا فرشتہ خدا کے حکم سے مصر میں گشت کرے گا۔ ہر مصری خاندان کا پہلوٹھا، انسان ہو یا جانور، ابدی نیند سلا دیا جائے گا۔ لیکن جس دروازے پر قربانی کا خون لگا ہوگا، وہ گھر آفت سے محفوظ رہے گا۔ وہ خون خدا کے حضور نجات کی علامت بن جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اس رات کو عیدِ فسح (عیدِ المحافظہ) قرار دیا وہ رات جو حفاظت، قربانی اور شکر کا نشان بنی۔ ربّ تعالیٰ نے فرمایا:
“اس دن کو یاد رکھو، اسے اپنی نسلوں کو سکھاؤ۔ جب تمہاری اولاد پوچھے کہ اس عید اور اس رسم کی حقیقت کیا ہے، تو کہنا کہ یہ وہ رات ہے جب ربّ العالمین نے ہمیں اپنی پناہ میں رکھا، اور دشمنوں کو نیست و نابود کیا۔”
حضرت موسیٰؑ نے ربّ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے تمام سرداروں کو جمع کیا اور انہیں یہ تمام ہدایات بتائیں۔ برّے ذبح کیے گئے، خون دروازوں پر چھڑکا گیا، اور پوری قوم نے رات کے وقت ربّ کی ہدایت کے مطابق اپنے گھروں میں قیام کیا۔
حضرت موسیٰؑ نے فرمایا:
“خبردار! اس رات صبح ہونے تک گھر سے کوئی باہر نہ نکلے، کیونکہ موت کا فرشتہ تمیز نہیں کرے گا مگر جس دروازے پر خون کا نشان ہوگا، وہ گھر ربّ کی حفاظت میں ہوگا۔”
پھر حضرت موسیٰؑ نے فرمایا:
“جب تم اس زمین پر پہنچو گے جس کا وعدہ تمہارے رب نے تم سے کیا ہے، تو ہر سال آج کے دن یہ قربانی کرنا، تاکہ نسل در نسل یاد رہے کہ تمہاری نجات خون کی علامت سے مشروط تھی۔”
پوری جماعتِ بنی اسرائیل حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے فرمان کے مطابق ربّ کے حضور سجدہ ریز ہوئی، اور جو حکم دیا گیا تھا، اُسے بعینہٖ پورا کیا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ رات فیصلہ کن ہے، یہ رات نجات کی رات ہے، اور یہی وہ ساعت ہے جب قربانی اطاعت بن کر نجات کا دروازہ کھولے گی۔
حضرت عطارؒ
بر خونِ قربان شبِ امن شد
ز نورِ حق ظلمتِ غم کم شد
ترجمہ:
“قربانی کے خون سے وہ رات امن کی رات بن گئی، اور حق کے نور سے غم کی تاریکی چھٹ گئی۔”
نتائج:
- قربانی اطاعت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس کا مقصد ربّ کی رضا ہے، اور اسی میں نجات چھپی ہے۔
- نجات ہمیشہ نشانِ الٰہی سے وابستہ ہے اس رات دروازوں پر خون وہ نشان تھا جو موت کو روکنے کا ذریعہ بنا۔
- نسلوں کی تربیت یادگاروں سے ہوتی ہے عیدِ فسح کو نسل در نسل منانا، ایمان کی حفاظت کی علامت ہے۔
- اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں کو پہلے نجات کی راہ سکھاتی ہے، پھر قہر کو نازل کرتی ہے۔
اختتامیہ:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ ربّ العالمین کی راہیں صرف عذاب سے نہیں بلکہ رحمت، نظم، اور قربانی سے بھی روشن ہوتی ہیں۔ جو قوم ربّ کے حکم پر اعتماد کرتی ہے، وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتی۔ عیدِ فسح، قربانی اور خون کا نشان ہے یہ سب ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ نجات اُنہی کے لیے ہے جو ربّ کے فرمان پر دل و جان سے جھک جائیں، اور جن کی اطاعت عبادت میں ڈھل جائے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔