سبق نمبر 8۔ بنی اسرائیل کا مصر میں سے خروج کرنا۔

جیساکہ خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو حکم فرمایا تھا اُسی دن آدھی رات کو خدا تعالیٰ کے حکم سے موت کے فرشتہ نے مصریوں کے تمام پہلوٹھوں کو ہلاک کردیا۔ جس میں فرعون کے پہلوٹھے بیٹے سے لے کر قید خانے میں بند مصری قیدیوں اور جانوروں کے پہلوٹھے تک لقمہ اجل بن گئے۔ تمام مصر میں ایسا آہ نالہ مچا کہ فرعون اور اُس کے درباری اور رعایا ہر بڑا کر اُٹھ بیٹھے کیونکہ پورے مصر میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں کوئی موت نہیں ہوئی۔
یہ سب دیکھنے کے بعد فرعون نے اسی لمحے اپنے درباریوں کے ذریعے حضرت موسیٰؑ و حضرت ہارونؑ کے پاس پیغام بھجوایا! آپ لوگ فوراً جاؤ! کیونکہ آپ لوگ جانا چاہتے ہو تو فوراً بنی اسرائیلیوں کو لے کر جلدی مصر سے نکل جاؤ اور اپنے رب کی عبادت کرو! آپ لوگ اپنے مال مویشی جو کچھ چاہو لے جاؤ لیکن اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ ہم پر رحم فرمائے۔
جب تک بنی اسرائیلی مصر سے نکل نہ گئے مصری لوگ گڑگڑاتے رہے کہ آپ مصر کو چھوڑ دو، ورنہ ہم سب مارے جائیں گے۔ خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں بنی اسرائیلیوں نے گُندھے ہوئے بے خمیرے آٹے کے تھال کپڑوں میں لپیٹ کر جلدی جلدی اپنے کندھوں پر رکھ کر مصر کو خیر باد کہہ کر چل دئیے۔ بنی اسرائیلیوں نے اپنے ساتھ سونے چاندی کے زیورات اور وہ تمام قیمتی کپڑے بھی لے لئے جو وہ پہلے ہی خدا تعالیٰ کے کرم سے بطور مالِ غنیمت سمیٹ چکے تھے۔
یوں بنی اسرائیلی قوم رعمسیس سے نکل کر مشرقی وادئ طوملات (جشن) علاقے سے لیکر سکوت(سکات) کے علاقے کی جانب پیدل روانہ ہوئے۔ اس وقت بنی اسرائیلی قوم میں عورتوں اور بچوں کے علاؤہ تقریباً چھ لاکھ مرد تھے۔ بنی اسرائیل کے اس قافلے کے ساتھ بے شمار بھیڑ بکریاں، ڈھور ڈنگر تھے۔ بنی اسرائیلیوں نے پہلی منزل پر پہنچ کر بے خمیرے آٹے کی روٹیاں پکا کر کھائیں کیونکہ مصر سے ایسی عجلت سے نکالے گئے تھے کہ ساتھ لایا ہوا آٹا خمیر نہ ہونے پایا تھا۔ یوں مصریوں میں قیام کے چار سو تیسویں سال کے آخر میں اس بابرکت رات بنی اسرائیل کے تمام قبائل ملکِ مصر سے نکل آئے۔
فرعون کے ہار ماننے کے بعد خدا تعالیٰ بنی اسرائیل قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں اس راستہ سے نہ لایا جس سے گزر کر فلستیوں کی سر زمین ملتی تھی۔ یہ راستہ اگرچہ مختصر تھا لیکن خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اگر بنی اسرائیلیوں کا سامنا مصر کے سرحدی پہرے داروں سے ہوگیا تو بنی اسرائیلی واپس مصر چلیں جائیں گے۔ چناچہ خدا تعالیٰ بنی اسرائیلیوں کو اس صحرائی راستے سے لے کر آیا جو بحیرہ احمر کی خلیج سے ہوکر گزارنا تھا۔
جس دن بنی اسرائیلی مصر سے نکلے حضرت موسیٰؑ نے حضرت یوسفؑ کا حنوط شدہ جسد مبارک بھی اپنے ساتھ لے لیا کیونکہ حضرت یوسفؑ نے بنی اسرائیل سے یہ عہد کیا تھا کہ جب خدا تعالیٰ کی فتح و نصرت تمہاری مدد کو آن پہنچے تو میری ہڈیوں کو اپنے ساتھ لیکر جانا اور کنعان میں دفن کرنا۔
سکوت (سکات) سے روانہ ہونے کے بعد بنی اسرائیلیوں نے صحرا کے کنارے واقع ایتام کے مقام پر پہنچ کر پہلا پڑاؤ ڈالا۔ اس سفر کے دوران تجلیء الٰہی دن میں بادل اور رات میں آگ کے شعلے کی صورت میں بنی اسرائیلیوں کی رہنمائی کے لئے قافلے کے آگے آگے چلا کرتی تھی۔ بادل اور آگ کا شعلہ پورے سفر میں ایک لمحے کے لئے بھی بنی اسرائیل کے قافلے کی نظروں سے اوجھل نہ ہوئے۔

درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔