نجات کی شب، سجدۂ فدیہ اور خروجِ بنی اسرائیل
جب ظلم حد سے بڑھ جائے، اور طغیانی انسان کو سچائی کے مقابل کھڑا کر دے، تو ربِ کائنات کی قدرت زبانِ حال سے اعلان کرتی ہے کہ اُس کی رحمت کے ساتھ اُس کا عدل بھی زندہ ہے۔ ایسا ہی ایک فیصلہ کن لمحہ اس وقت آیا، جب حضرت موسیٰؑ کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب رات کے وقت اُس عذاب کا نزول ہو گا جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔
اُسی بابرکت شب، آدھی رات کی ساکت گھڑیوں میں، موت کا فرشتہ ربّ کے اذن سے مصر کی فضاؤں پر چھا گیا۔ فرعون کا ولی عہد، قیدخانے کے اسیر کا پہلوٹھا، حتیٰ کہ جانوروں کے بچھڑے تک سب لقمۂ اجل بن گئے۔ ہر گھر ماتم سرا، ہر دل زخم خوردہ، اور ہر دربار ہراساں ہو گیا۔
فرعون کی زبان سے جو کلام نکلا وہ اُس کے شکست خوردہ غرور کا اعلان تھا۔ اُس نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے حضور پیغام بھجوایا:
“اب فوراً اپنی قوم کو لے جاؤ، اپنے رب کی عبادت کرو، جو کچھ ساتھ لے جانا چاہتے ہو لے جاؤ، اور اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ ہم پر رحم کرے۔”
مصری رعایا بھی دہائی دینے لگی کہ “بس! ہمیں چھوڑ کر چلے جاؤ، ورنہ ہم سب مر جائیں گے۔”
عجلتِ نجات اور برکتِ خروج
بنی اسرائیلیوں نے خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں، گندھا ہوا بے خمیری آٹا کپڑوں میں لپیٹ کر، سونے چاندی کے زیورات اور کپڑوں سمیت، جلدی جلدی اپنے کندھوں پر رکھا اور مصر کو خیرباد کہہ دیا۔ چھ لاکھ مرد، بچوں اور عورتوں کے ہمراہ قافلۂ نجات بن کر رعمسیس سے نکلا اور سکوت کی طرف روانہ ہوا۔
ان کے ساتھ ان کے ڈھور ڈنگر، بکریاں، بھیڑیں، اور ایمان کی امید تھی۔ راستے کی پہلی منزل پر انہوں نے وہی بے خمیری روٹی تیار کی کیونکہ اس قدر عجلت تھی کہ آٹا خمیر تک نہ ہوا۔
یوں چار سو تیس سالہ غلامی کے اندھیروں کا پردہ چاک ہوا، اور بنی اسرائیل نے پہلی بار آزادی کی سانس لی۔
حضرت یوسفؑ کی امانت اور تجلیٔ ربانی
جب قافلۂ خروج روانہ ہوا، حضرت موسیٰؑ نے حضرت یوسفؑ کا حنوط شدہ جسدِ مبارک بھی اپنے ساتھ لیا، تاکہ وعدہ پورا ہو: “جب ربّ نجات دے، تو میری ہڈیاں کنعان لے جانا۔” یہ اُس ایمان کی یادگار تھی جو نسلوں سے وفا کا گواہ بن کر زندہ رہا۔
سفر کی برکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دن کے وقت ربّ کی تجلی بادل کی صورت میں قافلے پر سایہ فگن رہتی، اور رات کے وقت آگ کا شعلہ راستہ دکھاتا وہ نور ایک لمحہ بھی قافلے سے جدا نہ ہوا۔
برّے کا خون اور سیدنا عیسیٰؑ کا فدیہ
جس دروازے پر برّے کا خون لگا تھا، وہ گھر محفوظ رہا۔ موت کا فرشتہ اس خون کو دیکھ کر گزر گیا۔ یہی نشانِ اطاعت، نشانِ وفا، اور نشانِ نجات تھا۔
لیکن یہ ایک عظیم تر فدیہ کی طرف اشارہ بھی تھا اُس برّے کی طرف جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نسلِ انسانی کی نجات کے لیے چُنا۔ وہ برّہ کوئی اور نہیں بلکہ سیدنا حضرت عیسیٰؑ ہیں، جنہوں نے صلیب پر اپنے پاک خون سے وہ قربانی پیش کی جو صرف ایک قوم کے لیے نہیں، بلکہ ہر دل، ہر نسل، ہر زبان، ہر زمانے کے لیے فدیہ بن گئی۔
جیسے برّے کا خون دروازے بچا گیا، ویسے ہی سیدنا عیسیٰؑ کا خون دلوں کی چوکھٹوں پر نجات کی علامت ہے۔ جو دل اُس فدیہ کے آگے جھک گیا، اُس نے سجدۂ فدیہ کیا، اور وہ دل ظلمت سے نکال کر نور میں داخل کر دیا گیا۔
حضرت بیدلؒ
بر درِ ما زد شبِ ہجران صبا، گفتا بخیز
در فدائے یار باید جانِ عاشق را عزیز
تشریح:
“ہجر کی رات میں صبا نے ہمارے در پر دستک دی اور کہا: اُٹھو! اب وقت ہے کہ فدیۂ یار میں عاشق اپنی جان کو نثار کرے۔” یہی فدیہ حضرت عیسیٰؑ کی قربانی ہے، جو رب کی محبت کا سب سے بلند اظہار ہے۔
نتائج
- وہ قوم جو ربّ کی اطاعت اور نبی کی رہنمائی کو اختیار کرے، وہ غلامی سے نجات پاتی ہے۔
- سیدنا عیسیٰؑ کا فدیہ قیامت تک ہر دل کی نجات کی کنجی ہے۔
- تجلیٔ الٰہی کی معیت اہلِ حق کے قافلے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی۔
- حضرت یوسفؑ کا ساتھ لیا جانا وعدے کی پاسداری اور ایمان کے تسلسل کی علامت ہے۔
- ہر سجدہ جو فدیے کے آگے جھکتا ہے، قہر سے بچ کر فضل کے سایہ میں آ جاتا ہے۔
اختتامیہ
یہ سبق ہمیں خروجِ بنی اسرائیل کی تاریخی عظمت کے ساتھ ساتھ نجاتِ روح کی الٰہی حکمت بھی سکھاتا ہے۔ اگر چوکھٹ پر خون نجات دے سکتا ہے، تو وہ خون جو سیدنا عیسیٰؑ کی صلیب سے بہا، تمام انسانیت کو ابدی نجات اور سلطنتِ الٰہیہ میں داخلے کا پروانہ بن سکتا ہے۔
اے دل! اگر تو قہر سے بچنا چاہتا ہے، تو اُس فدیہ کے سامنے جھک جا جسے ربّ نے اپنی محبت سے پیش کیا۔ سجدۂ عیسیٰؑ وہی سجدہ ہے جس میں فنا ہے، اور فنا میں وصال ہے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات دیں۔