عہدِ نو اور قربانی کی خوشبو
جب طوفان کا پانی خشک ہو چکا، اور زمین نئے آغاز کی منتظر تھی، تب حضرت نوحؑ، جنہوں نے اپنے رب کی رضا کے لیے ہر آزمائش کو خندہ پیشانی سے قبول کیا، ایک نیا روحانی باب رقم کرنے جا رہے تھے۔
آپؑ نے پتھروں سے ایک قربان گاہ بنائی، ایک ایسی جگہ جو صرف جانور ذبح کرنے کا مقام نہ تھی بلکہ شکرگزاری، اطاعت اور بندگی کی خوشبو سے معطر ایک مقدس مقام تھا۔
حضرت نوحؑ نے اپنے رب کی بارگاہ میں شکر کے اظہار کے طور پر ہر قسم کے پاکیزہ جانوروں اور پرندوں میں سے چند کو قربان کیا، اور انہیں مکمل طور پر جلا کر قربانی کی آگ میں خدا کی رضا کو تلاش کیا۔
جب اس قربان گاہ سے اٹھنے والی راحت انگیز خوشبو آسمان کی وسعتوں میں پہنچی، تو خالقِ کائنات نے محبت، شفقت اور حکمت سے لبریز فیصلہ فرمایا:
“اگرچہ انسان کا دل بچپن سے ہی شر کی طرف مائل رہتا ہے، پھر بھی مَیں اب کبھی ایسا قہر نازل نہ کروں گا جو تمام مخلوق کو ختم کر دے۔”
ربِ کریم نے یہ پیار بھرا وعدہ بھی فرمایا:
“جب تک زمین قائم ہے، بُوائی اور کٹائی، لُو اور ٹھنڈ، سردی اور گرمی، اور دن و رات کا سلسلہ کبھی رکے گا نہیں۔”
یہ محض ایک اعلان نہیں تھا، یہ ایک الٰہی معاہدہ تھا—جو بندگی، قربانی، اور وفا کے صلے میں نوحؑ کی نسل سے کیے گئے رحمت کے وعدے کا استعارہ بن گیا۔
: مولانا عبد الرحمٰن جامیؒ
“دلِ عاشق بسوزد بر سرِ کویِ وفاداری،
کہ آتش باشد آنجا، لیک در او نورِ پرستاری”
تشریح:
سچا عاشق اپنے محبوب کی رضا کے لیے خود کو جلانے کو تیار ہوتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس قربانی کی آگ میں فنا نہیں بلکہ قربت کا نور چھپا ہوتا ہے۔
حضرت نوحؑ کی قربانی بھی یہی تھی: دل سے کی گئی بندگی، جس کا صلہ رب کی رضا کی صورت میں ملا۔
نتائج:
- حضرت نوحؑ نے پہلا کام یہ کیا کہ اللہ کی بارگاہ میں قربانی اور شکر کے ساتھ رجوع کیا۔
- قربانی کی خوشبو رب کی رحمت کو جذب کرنے کا ذریعہ بنی۔
- اللہ تعالیٰ نے بندے کی اخلاص بھری عبادت کے بعد کبھی مکمل فنا نہ لانے کا وعدہ فرمایا۔
- یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ بندگی، دعا اور قربانی ہی حقیقی نجات کا راستہ ہے۔
- زمین کے نظام کا تسلسل اللہ تعالیٰ کے عہدِ رحمت کا مظہر ہے۔
اختتام:
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ جب زمین تباہی سے نکلتی ہے، تو تعمیر کا پہلا پتھر قربانی اور شکر ہوتا ہے۔
نوحؑ کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اطاعت و رضا ہی انسان اور خالق کے درمیان تعلق کی بنیاد ہے۔
ربّ کریم نے انسان کی کمزوری کو جانتے ہوئے رحمت کا دروازہ بند نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کے لیے زمین و وقت کے تسلسل کو جاری رکھنے کا وعدہ فرمایا۔
یہی وہ لمحہ تھا جہاں طوفان بند ہوا، لیکن بندگی کا سمندر کھل گیا۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔