سبق نمبر1- شیطان کی چالاکی

اب قصہ فتنہ اُٹھانے والے کا۔ اُس وقت سانپ زمین پر چلنے پھرنے والے اُن تمام جانداروں سے زیادہ عیّار تھا جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ  نے تخلیق کیا تھا۔ ایک دن شیطان نے چالاکی سے سانپ کا روپ دھارا اور باغِ عدن یعنی جنت میں جاکر (بی بی حوا ؓ) سے طنزیہ انداز میں پوچھا۔ اے عورت کیا واقعی اللہ تبارک وتعالیٰ  نے آپ دونوں کو یہ فرمایا ہے کہ تم باغِ عدن میں کسی بھی درخت کا پھل نہیں کھا سکتے ہو۔

(بی بی حوا ؓ) نے جواب میں شیطان سے کہا، ”نہیں نہیں۔ ہم باغِ عدن میں ہر درخت کا پھل کھا سکتے ہیں، سوائے شجرِ ممنوعہ کے درخت کے پھل کو ہرگز نہیں کھا سکتے جو باغِ عدن کے بیچ میں ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ  نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ شجرِ ممنوعہ کے درخت میں پھل نہ کھانا بلکہ اُسے چھونا بھی نہیں، ورنہ تم نقصان اُٹھانے میں سے ہوجاؤ گے۔“ شیطان جس نے سانپ کا روپ دھارا تھا اُس نے دوسری بار (بی بی حوا ؓ) کو بہکاتے ہوئے کہا” ایسا قطعاً نہیں ہوگا۔ بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ  جانتا ہے کہ جس دن آپؓ دونوں شجرِ ممنوعہ کے درخت میں سے پھل کھاؤ گے تو آپ دونوں کی آنکھیں کھل جائیں گی یعنی تمہیں بصیرت حاصل ہو جائے گی اور تم عرش والے کی طرح اپنے لئے خیر وشر کا انتخاب خود کرنے والے بن جاؤ گے۔

سبق کا خلاصہ

شیطان انسان کا کھلا اور واضح دشمن ہے، جس نے نہ صرف انسان کو جنت سے نکالا بلکہ اب اسے دوبارہ جنت میں جانے سے روکنے کے لئے بھی ہر وقت لگا رہتا ہے۔ یہ ایسا حاسد اور برتری پسند ہے کہ جو اپنے بےجا تکبر کی وجہ سے درگاہ الہی سے نکالا گيا اور اس نے قسم کھائی کہ وہ ہمیشہ انسان کو گمراہی کی طرف لے کر جائے گا۔ بلاشبہ ہم میں سے ہر ایک نے شیطان کے وسوسوں اور فریب کا واضح طور پر تجربہ کیا ہے اور بعض اوقات اس کے جال میں بھی پھنسے ہیں۔ شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے انس، آگاہی اور  تقوی ایسے اہم ترین عوامل ہیں کہ جو ہمیں نہ صرف اندرونی شیطان کے فریب بلکہ بیرونی شیطان کے نقصان سے بھی بچا سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمانی کتابوں کی بہت سی آيات میں شیطان کے نفوذ کی راہوں کے بارے میں انسان کو خبردار کیا ہے۔ شیطان انسان کے لئے ہرگز کسی قسم کی کوئی خیرخواہی نہیں کرتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسان کا دشمن ہے، یہ دشمن مسلسل انسان پر سوار ہے، پے درپے اسے دھوکہ دینے کی کوشش میں مصروف ہے اور لگاتار حیلے اور مکر کررہا ہے کہ اسے صراط مستقیم اور حق کے راستے سے دور کرتا چلا جائے۔ خوبصورتی اور زینت جو انسان کے مزاج کو پسند ہوتی ہے، البتہ اس چیز کی حقیقت اور باطن انسان کے مزاج اور خواہش کے خلاف ہوتی ہے، لہذا اگر زینت اور خوبصورتی کو ہٹا دیا جائے اور اس خوبصورت چیز کی حقیقت بے نقاب ہوجائے تو انسان اس سے نفرت، پرہیز، انتہائی دوری اور اس کو چھوڑ کر فرار کرجائے گا، شیطان اسی ظاہر پسندی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان کو دھوکہ میں ڈال دیتا ہے، یعنی ظاہر کو باطن کے خلاف بنا کر دکھاتا ہے، انسان ظاہر کو دیکھ کر باطن سے غافل ہوجاتا ہے۔ اگر انسان آسمانی کتابوں اور انبیاکرام (علیہم السلام) کی تعلیمات پر توجہ کرے تو سمجھ جائے گا کہ مختلف طرح کی خوبصورت اور پسندیدہ چیزوں اور کاموں سے کیسا برتاؤ کرنا چاہیے تا کہ باطن اور حقیقت کو بھی دیکھے اور شیطان کے دھوکہ کا شکار نہ ہوجائے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔