وسوسے کی ابتدا اور شیطان کا فریب

جب ربِّ کریم نے حضرت آدمؑ اور اُن کی زوجہ کو جنت میں سکون و آرام کے لیے بسایا، تو نعمتوں کی فراوانی اور روح کی طمانینت اُن پر برسائی گئی۔ ہر درخت، ہر پھل، ہر سایہ اُن کے لیے حلال قرار پایا مگر ایک درخت ایسا تھا جسے ربِّ علیم نے اُن پر حرام فرمایا، اور تاکید کی کہ اس کے قریب بھی نہ جانا۔

یہی تھی پہلی آزمائش، اور اسی میں شیطان نے اپنی پہلی چال چلی۔

تمام زمین پر رینگنے والے جانداروں میں سب سے زیادہ عیّار، خاموش اور مکار سانپ تھا۔ شیطان نے اُسی کی شکل اختیار کی تاکہ جنت میں داخل ہو اور انسان کو فریب دے سکے نہ زور سے، نہ شور سے، بلکہ نرمی اور چالاکی کے ساتھ۔

سانپ کی صورت میں وہ بی بی حواؓ کے قریب آیا اور کہا:
“کیا واقعی ربّ تعالیٰ نے تمہیں ہر درخت کے پھل سے روک دیا ہے؟”

یہ سوال بظاہر سادہ تھا، مگر اندر سے ایک وسوسہ، ایک شک، ایک فریب چھپا ہوا تھا۔

بی بی حواؓ نے جواب دیا:
“نہیں، ہمیں ہر درخت کا پھل کھانے کی اجازت ہے، سوائے اُس ایک کے جو جنت کے درمیان ہے۔
ہمارے ربّ نے فرمایا ہے کہ اُس درخت کو نہ کھانا، نہ چھونا، ورنہ تم نقصان اٹھاؤ گے۔”

شیطان خاموش ہو گیا، مگر اُس کا تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔
وسوسہ دل میں داخل ہو چکا تھا سوال کی صورت میں، شک کی لہر میں، فریب کی خوشبو میں۔

یہی تھا انسان کی پہلی آزمائش کا آغاز اور یہی سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ فتنہ کبھی چیختا نہیں، وہ ہمیشہ سرگوشی کرتا ہے۔


حضرت سعدی شیرازیؒ

شعر:
بہ دامن عقل بگیر و ز وسوسہ بگریز
کہ دامِ مکرِ شیطان، نبیند چشمِ کمینہ

تشریح:

حضرت سعدیؒ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ عقل و شعور کا دامن تھامے رکھو، کیونکہ شیطان کا جال اتنا باریک اور چالاک ہوتا ہے کہ عام نظر اسے نہیں پہچان سکتی۔
شیطان ہمیشہ سامنے سے وار نہیں کرتا، وہ عقل کو دھوکہ دے کر، نرمی سے دل میں اترتا ہے۔
اسی لیے عقل کے ساتھ یقین اور ربّ کی محبت ضروری ہے تاکہ وسوسے کی چالیں بے اثر ہو جائیں۔


نتائج:

  1. وسوسہ ہمیشہ سوال کی صورت میں آتا ہے، اور دل کو شک میں مبتلا کرتا ہے۔
  2. سانپ کا کردار ایک استعارہ ہے اُس خاموش فتنہ کا جو اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
  3. شیطان سچ اور جھوٹ کو ملا کر فریب تیار کرتا ہے۔
  4. صرف علم کافی نہیں — ایمان، خوفِ خدا، اور اطاعت ضروری ہے۔

اختتام:

یہ سبق ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ اگرچہ شیطان کا وار نظر نہیں آتا، مگر اُس کا وسوسہ دل کو کمزور کر دیتا ہے۔
انسان کی حفاظت اُس کے علم سے نہیں، اُس کی یقین، تقویٰ، اور عاجزی سے ہوتی ہے۔
جس دل میں ربّ کی خشیت ہو، وہ فریب کے قریب نہیں جاتا۔
اور یہی پہلا سبق ہے — فتنہ ہمیشہ فریب کے خوشنما پردے میں لپٹا ہوتا ہے۔

سوالات کے جوابات دیں۔