سبق نمبر1- پہلے دن کی تخلیق۔ دن اور رات

قصہ از تخلیق ازروئے توارۃ شریف

اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم فرمایا کُن فَیَکُوْن: روشنی ہو جائے۔ سو جیسا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا روشنی ہوجا سو روشنی تخلیق ہوگئی۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کُن فَیَکُوْن: اندھیرا اور روشنی ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تاکہ اپنے اپنے مقررہ اوقات میں تبدیل ہوں۔ سو جو کچھ خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا اندھیرا اور روشنی ایک دوسرے سے جدا ہوکر مقررہ اوقات میں تبدیل ہوگئے۔ تب اللہ تبارک وتعالیٰ نے روشنی کو “دن” کا نام عطا فرمایا اور تاریکی کو “رات” کا نام عطا فرمایا۔ یوں مغرب ہوئی، پھر فجر ہوئی اور پہلے دن کی تخلیق تمام ہوئی۔

سبق کا خلاصہ

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بار بار اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ رات اور دن کے آنے جانے، ان کے گھٹنے اور بڑھنے پر غور کرے تاکہ اسے علم یقین ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کس قدر قدرت والا ہے۔ وہ رات اور دن کے نظام کو کس ترتیب کے ساتھ چلا رہا ہے؟ رات اور دن میں سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ کروڑوں اور اربوں انسان سال ہا سال سے دیکھ رہے ہیں۔ رات اور دن کے آنے جانے کا سلسلہ اس قدر منظم ہے کہ آج تک دنیا کے کسی خطے میں ان کے آنے جانے میں نقص واقع نہیں ہوا۔ کیا انسان نے اس بات پر غور کیا ہے؟ کہ پوری دنیا کے سائنسدان اور حکمران مل کر بھی دن اور رات کے اوقات میں ایک سیکنڈ کا آگا پیچھا نہیں کرسکتے۔ رات اور دن کے اوقات ابد سے چوبیس گھنٹوں پر مشتمل ہیں یہ ازل تک چوبیس گھنٹے ہی رہیں گے۔ رات میں ان گنت فوائد ہیں۔ جن میں ایک ایسا فائدہ ہے جس سے ہر ذی روح مستفید ہوتا ہے۔ بالخصوص انسان سب سے زیادہ بہتر طریقے سے مستفید ہوتا ہے۔ رات کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے لباس قرار دیا ہے جس میں انسان کو خود بخود نیند آجاتی ہے۔ جس طرح لباس انسان کے جسم کو ڈھانپتا ہے اسی طرح ہی رات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسی خصوصیت رکھی ہیں جو دماغ کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ جس سے انسان کو نیند آتی ہے اور نیند سے انسان کی دن بھر کی تھکاوٹ اس طرح دور ہوجاتی ہے کہ صبح کے وقت وہ اپنے آپ کو قوت کار کے لیے تازہ دم پاتا ہے۔ یہاں تک کہ نیند انسان کے غم کو ہلکا کردیتی ہے۔ گویا کہ نیند سے انسان ہر طرح پُر سکون ہوجاتا ہے۔ نیند ایسی نعمت ہے کہ اگر انسان کسی وجہ سے نیند سے محروم ہوجائے تو ناصرف اس کا جسم تناؤ کا شکار ہوگا، بلکہ انسان کا زیادہ دیر زندہ رہنا محال ہوجائے گا۔ انسان ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح رات کے وقت سکون پاتی ہے۔ یہاں تک کہ نباتات میں بے شمار فصلیں اور پودے ایسے ہیں جو صرف رات کو ہی بڑھتے ہیں اور ان کے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔ رات کے مقابلے میں دن ہے۔ جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کام کاج اور چلنے پھرنے کے لیے بنایا ہے۔ دن کے فوائد بھی ان گنت ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کو چھوٹا اور بڑا کرتا ہے اسی طرح ہی دن کو طویل اور چھوٹا کرتا ہے۔ اگر لیل ونہار وقت کے اعتبار سے یکساں ہوتے تو ناصرف انسان کے لیے مسائل: پیدا ہوتے بلکہ انسان اپنی زندگی کو اپنے آپ پر بوجھ محسوس کرتا۔ اگر رات اور دن پر غور فرمائیں تو یہی انسان اور پوری کائنات کی زندگی کا نظام ہے اگر ان میں خلل واقع ہوجائے تو پورا نظام درہم برہم ہوجائے۔ اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی عظیم نشانیاں قرار دیا ہے۔

مندرجہ سوالات کے جوابات دیں۔