خوابِ زینہ – حضرت یعقوبؑ کی تنہائی میں رب کی حضوری

جب باپ کی زبان سے نکلی ہوئی دعا نسلوں کی پیشانی پر نور بن جائے، اور بیٹے کے سفر میں اللہ کی حضوری کا پیغام اتر آئے، تو وہ سفر صرف زمین کا نہیں رہتا، بلکہ روح کا مقدس سفر بن جاتا ہے۔ حضرت یعقوبؑ کا تنہا قدم، صحرا کی خامشی، اور آسمانی خواب — ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ رب جب قریب ہوتا ہے، تو زینہ زمین پر نظر آتا ہے اور رابطہ آسمان سے جڑ جاتا ہے۔

ایک دن حضرت اسحاقؑ نے اپنے بیٹے حضرت یعقوبؑ کو محبت اور دعاؤں کے سائے میں یوں رخصت کیا:

“میرے بیٹے! تیرا پروردگار تجھے برکت دے، تجھے کثرتِ اولاد عطا فرمائے، یہاں تک کہ قوموں کے قافلے تجھ سے جنم لیں۔ رب نے تیرے دادا ابراہیمؑ سے جو سرزمین کا وعدہ کیا تھا، وہی وعدہ اب تجھ سے بھی ہے۔ اے میرے بیٹے! کاش تُو وہ دن دیکھے جب یہ سرزمین تمہاری میراث کہلائے۔ لیکن یاد رکھنا! کنعانی لڑکیوں سے نکاح نہ کرنا، بلکہ مابین النہرین جا کر اپنے نانا بیتوایلؓ کے گھر سے، اپنے ماموں لابانؓ کی بیٹیوں میں سے کسی کو بیاہ لانا۔”

حضرت یعقوبؑ نے والد کی ہدایت کو سر آنکھوں پر رکھا، اور بئر سبع سے خاران کی طرف تنہا روانہ ہو گئے۔ سفر لمبا تھا، راہیں خاموش، اور صحرا وسیع۔

جب سورج نے مغرب کا بوسہ لیا اور رات کے سائے پھیلنے لگے، تو حضرت یعقوبؑ نے ایک پتھر کو سرہانے رکھا اور اللہ کا نام لیتے ہوئے سو گئے۔

مگر یہ نیند عام نہ تھی — یہ نیند ایک پیغام تھی، ایک مکاشفہ، ایک تجلی۔

حضرت یعقوبؑ نے خواب میں دیکھا کہ ایک زینہ زمین سے آسمان تک بلند ہے، اور فرشتے اُس پر چڑھ اور اتر رہے ہیں۔

اور پھر آواز آئی — وہ آواز جو دل کے پردوں کو چیر دے،
وہ ندائے ربّانی جو انبیاء کے دل میں اُترتی ہے:

“میں ہوں اللہ، تیرے باپ اسحاقؑ اور دادا ابراہیمؑ کا رب۔
یہ زمین، جس پر تُو لیٹا ہے، تجھے اور تیری نسل کو دے دوں گا۔
تیری اولاد چاروں سمتوں میں پھیل جائے گی — مشرق، مغرب، شمال و جنوب تک۔
وہ اس قدر ہوں گے جیسے ریت کے ذرّے۔
میں تیرے ساتھ ہوں گا، تجھے کبھی تنہا نہ چھوڑوں گا۔
جہاں بھی جائے گا، میں تیرا محافظ ہوں گا،
اور تجھے اسی زمین پر واپس لاؤں گا۔
میں اپنے وعدے کی ہر بات پوری کر کے رہوں گا۔”

جب حضرت یعقوبؑ نیند سے بیدار ہوئے، تو وہ جگہ اُن کے لیے صرف ایک پتھر نہیں، بلکہ عبادت کا مقام بن چکی تھی۔ اُن کی تنہائی، رب کی حضوری میں بدل گئی تھی۔ اُس زینے نے اُن کے لیے زمین و آسمان کے درمیان ایک ایسا تعلق جوڑ دیا، جو نسلوں کو روشنی دے گیا۔


شیخ عطار نیشاپوری فرماتے ہیں

دیدہ در خواب و نظر در نور شد
خاک زیرِ سر، بہ زِ تختِ حور شد

ترجمہ:
جس نے خواب میں دیدار کیا، اُس کی آنکھ نے نور پایا،
جس نے پتھر کو تکیہ بنایا، اُس کا بستر حوروں کے تخت سے بہتر ہو گیا۔

اشعار کی تشریح

شیخ عطار فرماتے ہیں کہ جب بندہ سچے دل کے ساتھ رب کی طرف رجوع کرتا ہے، تو خواب میں بھی اسے وہ نور عطا ہوتا ہے جو بیداری میں کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ حضرت یعقوبؑ کا وہ بستر جو ایک پتھر پر تھا، دراصل معرفت کا پل بن گیا۔

یہ اشعار ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ رب اپنے دوستوں کو تنہائی میں وہ قرب دیتا ہے جو محفلوں میں بھی نصیب نہیں ہوتا۔
ایک سادہ پتھر، اُس شب ایک درِ ملاقات بن گیا اور وہ نیند، وحی کا دروازہ۔


نتائج

باپ کی دعا، بیٹے کے راستے کو برکت بنا دیتی ہے۔
تنہائی میں کی گئی اطاعت، رب کی خاص حضوری کو جذب کر لیتی ہے۔
خواب صرف نیند کا منظر نہیں، بلکہ رب کی ہدایت کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ، چاہے نسلوں پر محیط ہو، ضرور پورا ہوتا ہے۔
اللہ اپنے بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا، بلکہ خاموشی میں بھی اسے آواز دیتا ہے۔


اختتامیہ

یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ جب انسان سچے دل سے رب کے وعدے پر یقین رکھتا ہے، تو وہ پتھر بھی بسترِ رحمت بن جاتا ہے،
اور خواب بھی ایک ایسا پیغام بن جاتا ہے جو آنے والی نسلوں کو حوصلہ، وفا، اور یقین کی روشنی عطا کرتا ہے۔
حضرت یعقوبؑ کا سفر بتاتا ہے کہ جو رب کا طالب ہو، وہ کبھی بےراہ نہیں ہوتا
اور جو ایک بار زینہ چڑھ جائے، وہ زمین پر بھی رب کی حضوری میں جیتا ہے۔

سوالات کے جواب دیں