اطاعت و اختیار کے درمیان پہلا امتحان

جب ربُّ النورِ والحکمت نے حضرت آدمؑ کو اپنی قدرتِ کاملہ سے مٹی کے قالب میں ڈھال کر روحِ ربّانی سے آراستہ فرمایا، تو اُنہیں نہ صرف زندگی بخشی بلکہ مقامِ خلافت عطا فرمایا۔ اُنہیں جنتِ عدن میں بسایا ایک ایسی جنت جہاں بہتے دریا، چمکتے درخت، مہکتی ہوائیں، سرسبز وادیان اور دائمی نعمتیں اُن کے استقبال میں موجود تھیں۔

یہ جنت صرف آرام و راحت کا مقام نہ تھی، بلکہ وہ پہلا دار الامتحان تھا، جہاں انسانی ارادہ، اطاعت اور شعور کو پہلا سبق دیا جانا تھا۔


ربِّ حکیم کا پہلا حکم

اسی جنت میں، ربُّ العزت نے حضرت آدمؑ سے خطاب فرمایا یہ خطاب صرف تنبیہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا روحانی میثاق تھا جس میں اطاعت و اختیار کے درمیان خطِ امتیاز کھینچا گیا۔

“اے آدم! تم جنت میں آزاد ہو۔ ہر درخت، ہر پھل تمہارے لیے ہے۔ جو چاہو کھاؤ، جہاں چاہو جاؤ۔ لیکن یاد رکھو — ایک درخت ہے جسے ہم نے تم پر ممنوع قرار دیا ہے۔ اُس کے قریب مت جانا۔ اگر تم نے اُس کی نافرمانی کی تو تم نقصان اٹھانے والوں میں شمار کیے جاؤ گے۔”

یہ وہ کلام تھا جس میں نعمت بھی تھی، حد بھی، آزادی بھی تھی، ادب بھی۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں انسان کو سکھایا گیا کہ اطاعت، بندگی کی بنیاد ہے۔


اس حکم کا مفہوم اور حکمت

شجرِ ممنوعہ کوئی ظاہری پھل نہ تھا جس کی لذت سے منع کیا گیا ہو بلکہ وہ ایک روحانی حد تھی، جسے عبور کرنا اس مقامِ قربت سے دوری کا باعث بن سکتا تھا۔

ربِّ علیم نے حضرت آدمؑ کو اس نعمت بھرے ماحول میں محض آزمائش کے لیے نہیں رکھا، بلکہ انہیں ذمہ داری کا شعور عطا کرنے کے لیے، تاکہ وہ جانیں کہ:

قربتِ الٰہی صرف عطا سے قائم نہیں رہتی، بلکہ بندگی سے محفوظ رہتی ہے

علم، اختیار اور نعمتیں آزمائش کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں

انسان کا سب سے بڑا امتحان تب ہوتا ہے، جب اسے سب کچھ مل جائے اور پھر اُس سے کچھ “نہ کرنا” کو کہا جائے


شیخ محمود شبستریؒ

“حدیثِ آدم و آن شاخِ منع،
بود تعلیمِ بندہ را چون صَنَع.”

تشریح:
آدمؑ اور ممنوعہ درخت کی کہانی ایک تربیت ہے، ایک ایسا ہنر ہے جس کے ذریعے بندے کو ادب و اطاعت کی مشق دی گئی — تاکہ وہ جانے کہ حکم کے سامنے خواہش کچھ نہیں۔


روحانی گہرائی اور درس

یہ سبق ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ:

آزمائش صرف دکھ میں نہیں، نعمت میں بھی ہوتی ہے

جو مقام بلند ہوتا ہے، اُس کا امتحان بھی باریک اور خفی ہوتا ہے

علم و عقل کے باوجود، بندہ اُس وقت ہی کامیاب ہوتا ہے جب خضوع، عاجزی اور فرمانبرداری کو اختیار کرے

“قربت” کوئی خودکار رشتہ نہیں — یہ اطاعت سے جڑا ہوا روحانی بندھن ہے

نتائج :

  1. انسان کی پہلی آزمائش نعمت کے درمیان ہوئی — نہ کہ محرومی میں۔
  2. شجرِ ممنوعہ اطاعت کی حد کا نام ہے — جو انسان کو اختیار کے باوجود ادب سکھاتا ہے۔
  3. حضرت آدمؑ کے واقعے سے ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ خواہش سے بلند ہو کر حکم کو تسلیم کرنا بندگی کی اصل ہے۔
  4. ہر نعمت کے ساتھ ایک حد ہوتی ہے، جو اس نعمت کو برکت میں بدلتی ہے۔
  5. جنت کی قربت ہمیں مفت نہیں ملتی — وہ صرف اطاعت، ضبطِ نفس اور شکرگزاری سے قائم رہتی ہے۔

اختتام :

یہ سبق حضرت آدمؑ کی کہانی کے اس مقام کو بیان کرتا ہے جہاں ربِّ کریم نے انسان کو عقل، ارادہ، اور آزادی عطا کر کے اُس کی وفاداری کو پرکھا۔

شجرِ ممنوعہ دراصل وہ درخت تھا جو انسان کے دل کے آئینے کو دکھانے آیا تھا — کہ اس میں حکم کا عکس ہے یا خواہش کا؟
اور جو بندہ اس آئینے میں اطاعت کا نور دیکھے، وہی رب کے نزدیک مقرب ہوتا ہے۔

سوالات کے جوابات دیں۔