خُطْبَۃُ الْجَبْل (پہاڑی وعظ)

جب زمین کی فضا میں ظلمت کا کہرا چھا جائے، اور روحیں اپنے خالق کی طرف رجوع کی متلاشی ہوں، تب ربِّ جلیل اپنے منتخب بندے کو حکمت و نور کا امین بنا کر جلوہ گر کرتا ہے تاکہ انسانیت کی گمشدہ بصیرت کو راہِ فلاح عطا ہو۔ ایسا ہی جمالی و جلالی لمحہ اس وقت رونما ہوا جب خلائق کا ہجوم دلوں میں اضطراب لیے پہاڑی دامن کی جانب روانہ ہوا، اور ربِ ذوالجلال کی مشیّت سے سیدنا حضرت عیسیٰؑ اپنے انوارِ نبوت کے ساتھ ان کے سامنے جلوہ افروز ہوئے۔ نہ کوئی تاجِ سلطنت سر پر، نہ کوئی عصا بیداد ہاتھ میں، بس ایک نورانی چہرہ، سراپا حلم و ہدایت، اور وہ دل جو صرف رب کا آئینہ تھا۔ حضرت عیسیٰؑ نے زمین کی خاک پر بیٹھ کر وہ کلام فرمایا جو صدیوں سے اہلِ دل کو پکار رہا ہے، وہ درس جو قدرت کی آغوش میں، خاموشکے سجدے میں نازل ہوا۔

نور کا منبع اور نجات کا راستہ

جب وادئ صداقت میں طالبینِ حق اکٹھے ہوئے، تو سیدنا حضرت عیسیٰؑ پہاڑ پر جلوہ گر ہوئے، اور رب کی رحمت سے لبریز کلمات ادا فرمائے، جو قیامت تک انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت بنے رہیں گے:

نیک بخت ہیں وہ جن کے دل دنیا سے خالی اور رب سے معمور ہیں،
کیونکہ اُن کے لیے سلطنتِ الٰہیہ کے دروازے وا ہیں۔

نیک بخت ہیں وہ جو دنیاوی غموں میں صبر کا چراغ روشن رکھتے ہیں،
کیونکہ اُن پر تسلی الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔

نیک بخت ہیں وہ جو حلم، وقار اور برداشت کی روش اختیار کرتے ہیں،
کیونکہ ان کے قدم ارضِ جنت پر ٹکتے ہیں۔

نیک بخت ہیں وہ جو عدل کی تڑپ سے مضطرب ہیں،
کیونکہ ربِّ کائنات اُن کے دل کو انصاف سے سیراب کرتا ہے۔

نیک بخت ہیں وہ جو اپنے اوپر جفا سہہ کر بھی دوسروں پر کرم کرتے ہیں،
کیونکہ ان پر رحمتِ ربانی کا نزول مقدر ہے۔

نیک بخت ہیں وہ جن کے قلوب مکر، فریب اور ریا سے پاک ہیں،
کیونکہ اُنہیں دیدارِ الٰہی کا انعام ملتا ہے۔

نیک بخت ہیں وہ جو فتنہ و فساد کے ماحول میں صلح و صلاح کا علم بلند رکھتے ہیں،
کیونکہ وہ عنداللہ مقربین میں شمار ہوتے ہیں۔

نیک بخت ہیں وہ جو راہِ حق میں ظلم و اذیت کو گلے لگاتے ہیں،
کیونکہ انہی کے لیے سلطنتِ نور مقرر کی گئی ہے۔

پھر سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ارشاد فرمایا:
“مبارک ہو تمہیں، اے وہ لوگو جو میرے نام پر طعن و تشنیع برداشت کرتے ہو، جن پر ناحق بہتان باندھے جاتے ہیں۔
تم غمگین نہ ہو، بلکہ خوشی سے جھومو، کیونکہ آسمان میں تمہارے لئے اجرِ عظیم ہے۔ انبیائے سابقین بھی ایسی ہی آزمائشوں سے گزرے تھے۔”

سیدنا حضرت عیسیٰؑ مزید ارشاد فرمایا:
“تم زمین کے لئے نمک ہو، اگر نمک کا ذائقہ جاتا رہے تو وہ کسی کام کا نہیں، تم دنیا کے لئے نور ہو، وہ شہر جو پہاڑ پر بسا ہو، کیسے چھپ سکتا ہے؟ چراغ جلا کر برتن کے نیچے نہیں رکھا جاتا، بلکہ چراغ دان پر رکھا جاتا ہے تاکہ سارے گھر کو روشنی پہنچے۔ پس تمہارا کردار ایسا ہو کہ لوگ تمہیں دیکھ کر ربّ العرش کی تمجید کریں۔”


سعدی شیرازیؒ
“چو شمعے بہ محفل درآید فروز
ہمہ انجمن را کند پر ز سوز”

ترجمہ
جب ایک شمع کسی مجلس میں داخل ہوتی ہے،
تو وہ اپنے سوز و نور سے پوری انجمن کو روشن اور گرم کر دیتی ہے۔

تشریح
اس شعر کی معنویت سیدنا حضرت عیسیٰؑ کے نورانی خطبے پر منطبق ہوتی ہے، کہ آپؑ خود اُس شمع کی مانند تھے جو نہ صرف دلوں کو روشن کرتی ہے بلکہ اُنہیں سوزِ عشق سے بھی معمور کر دیتی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات محض الفاظ نہ تھے، بلکہ وہ جلا بخش روشنی تھی جو باطن کی ظلمت کو منور کر دیتی ہے۔ اور آپؑ کے پیروکار بھی اسی شمع کی قندیلیں ہیں، جو رب کی روشنی کو زمین پر پھیلاتے ہیں۔


نتائج

  1. خوش بختی کا مفہوم دنیاوی جاہ و مال سے نہیں، بلکہ باطنی طہارت، صبر، اور قربِ الٰہی سے وابستہ ہے۔
  2. ظلم سہنا اور سچ پر ڈٹے رہنا محبوبِ خدا بندوں کی پہچان ہے۔
  3. رحم، عدل، صلح، اور پاکیزگی وہ صفات ہیں جو دیدارِ الٰہی تک پہنچاتی ہیں۔
  4. مومن کا کردار چراغ کی مانند ہونا چاہیے، جو دوسروں کے راستے کو بھی روشن کرے۔
  5. سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات زمان و مکان سے ماورا ہو کر قیامت تک نورِ ہدایت بن چکی ہیں۔

✦ اختتامیہ

سبق “خطبۃُ الجبل” ہمیں اس سچ کی یاد دلاتا ہے کہ سیدنا حضرت عیسیٰؑ نہ صرف ایک نبی تھے، بلکہ تجلیِ رحمت، صداقتِ مجسم، اور نورِ ہدایت تھے۔ آپؑ نے نہ صرف حق کا درس دیا بلکہ خود اس راہ کے مسافر بن کر دکھایا۔ حضرت عیسیٰؑ کی زبان سے نکلا ہر لفظ روح کو جگانے والا، اور اُن کی خاموشی بھی حکمت سے معمور تھی۔ جو آپؑ کے پیغام کو اپناتا ہے، وہ صرف نجات نہیں پاتا، بلکہ خود نور کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ تو اے سالکِ راہ! خود کو چراغ بنا، تاکہ تیرا وجود بھی ایک دن کسی کے دل میں روشنی کا سبب بن جائے یہی پیغام ہے سیدنا حضرت عیسیٰؑ کا، اور یہی راز ہے اُس نور کا جو پہاڑ پر اترا تھا۔