صلوٰۃ و دعا کے متعلق تعلیم

دعا وہ نور ہے جو دل کی تاریکیوں کو منور کرتا ہے، وہ صدا ہے جو بندے کو رب تعالیٰ کے قریب لے جاتی ہے، اور وہ آہ ہے جو زمین سے بلند ہو کر عرشِ الٰہی کو چھو لیتی ہے۔ لیکن جب یہی دعا ریا، نمائش، یا فخریہ انداز اختیار کرے، تو اس کی روح فنا ہو جاتی ہے۔

دعا کی روحانی تہذیب
سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا:
جب تم دعا مانگو، تو منافقین کی پیروی مت کرو! وہ تو اپنے نوافل عبادت خانوں میں دکھاوے کے لئے ادا کرتے ہیں اور چوراہوں پر کھڑے ہو کر اس لئے دعا مانگتے ہیں تاکہ لوگ اُنہیں دیکھیں اور اُن کی تعریف کریں۔ یقین جانو! اُنہیں جو صلہ ملنا تھا، وہ اسی دنیا میں مل چکا ہے۔

لیکن جب تم اپنے ربِ عزیم سے دعا کرنا چاہو، تو خلوت اختیار کرو؛ اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کرو، اور راز و نیاز کے ساتھ اُس ربِ کریم سے مناجات کرو جو پردۂ غیب میں ہے، اور وہی تمہیں تمہارے اخلاص کا اجر عطا فرمائے گا۔ ان لوگوں کی مانند دعا مت مانگو جو ربِ جلیل سے دور ہیں، جو صرف رٹے رٹائے الفاظ سے اپنی دعاؤں کو طویل کرتے ہیں، گویا اُن کی فصاحت و بلاغت ہی قبولیت کا ذریعہ ہے۔ یاد رکھو! تمہارا ربّ، جو علیم و خبیر ہے، وہ تمہارے لب ہلانے سے قبل ہی تمہاری حاجات سے واقف ہے۔

سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا تم بارگاہِ الٰہی میں اس طرح دعا کیا کرو!
اے پروردگارِ ما!
اے مالکِ ارض و سماء!
تیرا نام متبرک اور بلند تر ہو!
تیری سلطنت کا ظہور جیسے آسمان پر ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہو!
تیری رضا ہم پر بھی اسی طرح جاری ہو، جیسے ملاءِ اعلیٰ پر جاری ہے!
ہمیں آج کا رزق عطا فرما، قبل اس کے کہ سورج غروب ہو!
ہمارے گناہوں کو بخش دے، جیسے ہم نے اپنے مقصر بھائیوں کو معاف کیا!
ہمیں شیطان اور اس کے وسوسوں سے محفوظ فرما!
آمین، اے ربِّ اعلیٰ، ربُّ العرشِ العظیم!”

سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے ارشاد فرمایا:
سنو! اگر تم دوسروں کی خطاؤں او غلطیوں کو معاف کرو گے، تو تمہارا ربّ، جو غفور و رحیم ہے، تمہاری بھی مغفرت فرمائے گا۔ اور اگر تم اپنے دل میں کینہ رکھو گے، اور معاف نہ کرو گے، تو تمہارا ربّ تمہیں کیسے معاف کرے گا؟


شیخ سعدیؒ:
دعا آن بہ کہ از دل خیزد ای جان
کہ از دل گفتہ گردد آسمانی

ترجمہ:
دعا وہی بہتر ہے جو دل سے نکلے،
کیونکہ جو دل سے ادا ہو، وہ آسمان تک پہنچتی ہے۔

تشریح:
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ دعا وہی مقبول ہے جو دل کی گہرائی سے نکلے، کیونکہ خالص دل کی پکار ہی آسمان تک رسائی پاتی ہے۔ یہ شعر سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی اس تعلیم کا آئینہ ہے، جس میں سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا کہ دعا کو ریاکاری اور ظاہری نمائش سے پاک رکھو اور اسے خلوت میں، خالص نیت کے ساتھ مانگو۔


نتائج:

  1. دعا کو خلوت میں، خالص نیت اور صداقتِ قلب کے ساتھ مانگنا چاہئے، نہ کہ لوگوں کی واہ واہ کے لیے۔
  2. جو دعا محض زبان سے ہو اور دل اس میں شریک نہ ہو، وہ عرش کی طرف بلند نہیں ہوتی۔
  3. دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اعتراف، اس کی رضا کا اظہار، اور اپنی گناہوں کی معافی طلب کرنا اہم ہے۔
  4. معاف کرنا، روح کی بلندی کی علامت ہے، اور یہی عمل بندے کو ربّ کی مغفرت کا حقدار بناتا ہے۔
  5. سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم میں دعا نہ صرف ایک عملِ عبادت ہے بلکہ روحانی پاکیزگی اور اخلاقی ارتقاء کا ذریعہ بھی ہے۔

اختتامیہ:

یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ دعا وہ زینہ ہے جس سے بندہ ربِ کریم کے قرب کی جانب چڑھتا ہے، بشرطیکہ وہ زینہ اخلاص، فروتنی، اور درگزر کی اینٹوں سے تعمیر ہوا ہو۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ تعلیم ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر دل اپنے باطن کو دیکھ سکتا ہے۔ جو دعا خلوت میں ہو، سچے دل سے ہو، دوسروں کی مغفرت کے ساتھ ہو، وہ بندے کو نہ صرف ربّ کے قریب لاتی ہے بلکہ اُس کے باطن کو بھی روشنی عطا کرتی ہے۔