آخرت کی تیاری کے متعلق تعلیم

انسان کی زندگی کا حقیقی سفر اس دنیا کے بعد شروع ہوتا ہے، اور وہی آخرت کا راستہ ہے جس کے لیے قلبِ مومن کو زادِ راہ درکار ہے۔ یہ دنیا ایک سرائے ہے، جہاں ہر نفس مسافر ہے، اور کسی کو یہاں قیامِ دائم نصیب نہیں۔ ہر سانس ایک قدم ہے اور ہر لمحہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ زادِ سفر وہیں محفوظ کرے جہاں ٹھکانہ دائمی ہے یعنی بارگاہِ ربّانی، جو نہ فانی ہے، نہ محدود، بلکہ ابدی ہے۔ اس دنیا کی ظاہری چمک انسان کو دھوکہ دے سکتی ہے، کیونکہ یہاں کا ہر نقش مٹنے والا ہے، اور ہر رنگ زوال پذیر۔ لیکن وہ دل جو بصیرت سے روشن ہو، وہ دنیا کو فقط ذریعہ سمجھے گا، نہ کہ منزل، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اصل راحت رضائے الٰہی میں ہے، اور اصل کامیابی اس گھڑی کی تیاری میں ہے جس کے بعد کوئی واپسی نہیں۔

دل کا زادِ راہ

سیدنا حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا:
“اے لوگو! فانی دنیا کے لئے خزانے مت جمع کرو کیونکہ اس خزانے پر زوال طاری ہوتا ہے، جنہیں گھُن کھا جاتا ہے، یا چور چرا لیتے ہیں۔

بلکہ اپنا خزانہ آسمان میں جمع کرو، وہاں نہ کوئی کیڑا نقصان پہنچا سکتا ہے، نہ چوری ہو سکتی ہے، نہ بربادی ہوتی ہے۔
یاد رکھو! جہاں تمہارا خزانہ ہو گا، وہیں تمہارا دل بھی ٹھہرا رہے گا۔

اگر تمہاری آنکھ، یعنی تمہاری نیت اور نگاہ، صاف اور سخاوت سے روشن ہے، تو تمہارا پورا وجود نور سے بھر جائے گا۔

اور اگر تمہاری نگاہ میں بخل، تنگی، اور دنیا پرستی کا دھواں چھایا ہوا ہے، تو تمہارا پورا اندر تاریکی میں ڈوب جائے گا۔ اور وہ تاریکی کیسی ہولناک ہو گی جو روح کی روشنی کو بجھا دے!


حکیم عمر خیّامؒ
دل بہ دنیا مبند ای برادرِ جان
کارِ دنیا گذر است و نیستی آسان

ترجمہ:
اے بھائی دل دنیا سے وابستہ نہ کر
دنیا کا کام فقط گزر جانا ہے، اور اس کا فنا ہونا بہت آسان ہے۔

تشریح
عمر خیّامؒ اپنے اس شعر میں دنیاوی محبت کے فریب کو بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ اپنے قاری کو روحانی صداقت کا پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے عزیز! دنیا کی چمک دمک تیرے دل کو باندھ نہ لے، کیونکہ یہ سب فنا ہونے والی ہے۔ اس کا گذر جانا یقینی ہے اور اس کا کھو جانا بہت سہل ہے۔ خیّامؒ کا یہ شعر دراصل ایک صوفیانہ تنبیہ ہے: کہ اصل دولت وہ نہیں جو ہاتھوں میں ہے، بلکہ وہ ہے جو دل میں رکھی گئی ہے اور وہی دل کامیاب ہے جو آخرت کے لئے ذخیرہ کرتا ہے، نہ کہ دنیا کے لئے ذخیرہ کرتا ہے


نتائج:

  1. دنیا کی محبت دل کو کمزور کرتی ہے، جبکہ آخرت کی محبت دل کو منور کرتی ہے۔
  2. سخی دلی اور اخلاص، انسان کے باطن میں نور کا دروازہ کھولتے ہیں۔
  3. مال کو آخرت کے لئے خرچ کرنا ہی اصل سرمایہ کاری ہے۔
  4. جہاں خزانہ ہو، وہیں دل بھی ہوتا ہے پس خزانے کو آسمانی بنا لو تاکہ دل ربِ جلیل کے قریب ہو جائے۔
  5. دل کی نگاہ اگر رب العزت کی طرف ہو، تو دنیا کے فریب دھندلاتے چلے جاتے ہیں۔

اختتامیہ :
یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ اصل بیداری وہ ہے جو دل کو دنیا سے ہٹا کر سلطنتِ الٰہیہ کی طرف لے جائے۔ وہاں کوئی چور نہیں، کوئی زوال نہیں، فقط ربّ کی حضوری ہے اور ابدی سکون۔ سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی یہ تعلیم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم صرف مٹی کے نہیں، بلکہ روح کے بھی مسافر ہیں۔ جو دل دنیا کی زینت میں گم ہو جائے، وہ اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے؛ لیکن جو دل ربّ کی رضا، خدمتِ خلق، اور نورانی مقاصد کی جانب راغب ہو، وہ فلاح اور نجات کے سفر پر گامزن ہوتا ہے۔